1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طلبہ کے جمہوری حقوق کب بحال ہوں گے؟

25 نومبر 2019

پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں اٹھنے والی آوازوں میں اب تیزی آتی جا رہی ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیموں نے انتیس نومبر کو طلبہ یونینز کی بحالی کے حق میں ’طلبہ یکجہتی مارچ‘ کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Th4A
Bangladesch  Studenten Universität
تصویر: picture-alliance/dpa/Z. H. Chowdhury

طلبہ یونینز پر پابندی کو قریب ایک تہائی صدی ہو چلی ہے۔ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق نے انیس سو چوراسی میں طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے انیس سو اٹھاسی میں برسراقتدار آنے کے بعد اس پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس اقدام کو انیس سو نوے میں عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔ انیس سو ترانوے میں عدالت نے ضابطہ اخلاق سمیت کچھ شرائط کے ساتھ طلبہ یونینز کے انتخابات کی بات کی تھی۔ لیکن تاحال طلبہ اپنے جمہوری حق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ گزشتہ دوراقتدار کے آغاز پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی اپنا یہ وعدہ وفا نہ کرسکے۔

نئی سیاسی قیادت کی تربیت گاہ

طلبہ یونینز نے پاکستان کی قومی سیاست کو جو سیاسی رہنما دیے ان کی فہرست کافی طویل ہے تاہم ان میں جاوید ہاشمی، شیخ رشید احمد، مشاہد اللہ خان، احسن اقبال، لیاقت بلوچ، قمر الزماں کائرہ، اعجاز احمد چوہدری، اور خواجہ سعد رفیق کے علاوہ مرحوم جہانگیر بدر بھی شامل تھے۔

پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے دو طرح کےنقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ طلبہ یونینز نوجوانوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے، ان کی قائدانہ صلاحیتیں نکھارنے کے ساتھ ساتھ طلبہ اور انتظامیہ میں بامقصد مکالمے کا باعث بنتی ہے۔

لمز کے ہوسٹل میں طالب علم کی ہلاکت منشیات سے ہوئی یا نہیں؟

جبکہ مخالفین کی رائے میں طلبہ کی تعلیمی نظام کونقصان پہنچتا ہے۔ وہ تشدد اور غیر تعلیمی مشاغل میں الجھ کر اپنا تعلیمی کیریئر خراب کر بیٹھتے ہیں۔

Pakistan Studenten Klausur  University of Engineering and Technology
تصویر: picture-alliance/Pacific Press

سابق طالب علم رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری جنرل چوہدری منظور احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طلبہ یونینز کی بحالی سے قوم کووہ لیڈرشپ ملے گی، جسے اب گملوں میں پیدا کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول آج ہائیر ایجوکیشن کے بجٹ میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ فیسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب طلبہ کی آوازکو سننے والا کوئی نہیں، ''ہم سندھ میں طلبہ یونینز بحال کرنے جا رہے ہیں اور طلبہ یک جہتی مارچ کو بھی بھرپور طریقے سے سپورٹ کریں گے۔‘‘

طالب علموں کے حقوق کا تحفظ

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں کے ذریعے طلبہ و طالبات کی نگرانی کا جو سکینڈل سامنے آیا تھا اس نے بھی طلبہ برادری کی بے بسی کو بے نقاب کر دیا تھا۔

پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل امیرالعظیم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج تو طلبہ یونینز پر پابندی ہے اوراب تعلیمی اداروں میں پر تشدد کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا اسکینڈل

ان کے مطابق، ''قومی انتخابات کے دوران بھی امن و امان کی صورتحال بعض اوقات خراب ہو جاتی ہے، کیا ان پر بھی بین لگا دینا چاہیے۔ ہم طلبہ یونینز کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سے باصلاحیت غریب نوجوانوں کو بھی قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جو لوگ طلبہ یونینز سے قومی سیاست میں آئے ان کی کارکردگی اور ان کا کردار ہمیشہ ہی ڈرائنگ رومز سیاستدانوں اور'الیکٹیبلز‘ سے بہت بہتر رہا ہے۔‘‘

Peshawar Pakistan GiZ Gruppenfoto
تصویر: Danish Babar

نوجوان وکیل راؤ مدثر اعظم کا خیال ہے کہ طلبہ یونینز کی وجہ سے طلبہ تعلیمی تقاضوں کو بھول کر ہڑتالیں کروانے اور احتجاجی مظاہرے کرنے لگ جاتے ہیں جو ان کے تعلیمی کیریئر کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔

سینیئر تجزیہ نگار بریگیڈئیر( ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے لگتا ہے کہ کشمیر اور ایٹمی مسئلے کی طرح پاکستان کی ریاست طلبہ یونینز کے مسئلے پر بھی حتمی فیصلہ لے چکی ہے تاکہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک رکھا جائے اور طلبہ برادری کو وکلاء کی طرح سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بننے اور سیاسی طور پر تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے اور ان کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اعلان کرنے کے باوجود طلبہ یونینز بحال نہیں کر سکے تھے۔‘‘

طلبہ یکجہتی مارچ کو منعقد کرنے والی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن حسنین جمیل فریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کی یقین دہانی پر مبنی ایک حلف نامہ لیا جاتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل سترہ کے منافی ہے، جو شہریوں کو ایسوسی ایشن بنانے کی اجازت دیتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم: جرمنی غیر ملکی طلبہ کا پسندیدہ ترین ’نان انگلش‘ ملک

اسلامی جمیعت طلبہ پاکستان کے مرکزی ناظم اعلی محمد عامر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے آواز اٹھانے والی ہر تنظیم کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن طلبہ یک جہتی مارچ کرنے والوں نے ان سےکوئی رابطہ نہیں کیا، ''طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے کیونکہ میرے خیال میں موروثی سیاست کی حامی سیاسی جماعتیں طلبہ یونینز کی بحالی میں مخلص دکھائی نہیں دیتیں۔‘‘

چند دن پہلے سندھ اسمبلی نے صوبہ سندھ میں طلبہ یونینز پر پابندی کے خاتمے کی قراردار متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ اس سے پہلے ملکی سینیٹ میں بھی طلبہ یونینز کی بحالی کے حق میں ایک قرار داد منظور کی جا چکی ہے۔ اس مرتبہ طلبہ یونینز کی بحالی کے ساتھ اس ضمن میں ضابطہ اخلاق کی بات بھی کی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل کا حبیب یونیورسٹی کا دورہ