سویڈن میں تارکین وطن کی مخالف پارٹی: اولین کامیابی کی توقع
11 ستمبر 2010سویڈن کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ لبرل معاشروں میں ہوتا ہے اور گزشتہ انتخابات کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سویڈن ڈیموکریٹس نامی پارٹی کو حاصل تائید میں اضافے سے حکومت اور عوام دونوں کو ہی شدید دھچکا لگا تھا۔
اس پارٹی کے رہنماؤں کو توقع ہے کہ آج سے قریب ایک ہفتے بعد ہونے والے انتخابات میں انتہائی نظریات کی حامل یہ پارٹی پہلی مرتبہ ملکی پارلیمان میں کافی زیادہ نشستیں حاصل کر لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
یہ امکان بھی ہے کہ یہی جماعت سٹاک ہولم میں بڑی پارٹیوں کے لئے نئی حکومت کے قیام کو مشکل بھی بنا سکتی ہے۔
سویڈن کے جنوبی ساحلی شہر لینڈز کرونا میں اس پارٹی کے 77 سالہ مقامی کونسلر بظاہر دھیمی گفتگو کرنے والے ایک ایسے بزرگ شہری نظرآتے ہیں، جو بڑی خوش مزاجی سے بات کرتے ہیں۔ لیکن سوینی ہاکسن کے سیاسی نظریات بہت سخت اور غیر لچکدار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سویڈن ڈیموکریٹس نامی یہ پارٹی ملک میں تارکین وطن کی آمد میں واضح کمی کے خواہشمند ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ہم چاہتے ہیں کہ سویڈن میں غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کی شرح کم کر کے تقریبا اتنی ہی کر دی جائے، جتنی کہ ہمسایہ شمالی یورپی ملکوں فن لینڈ اور ڈنمارک میں نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سویڈن اب تک اپنے ہاں جتنے غیر ملکیوں کو قبول کرتا ہے، مستقبل میں ان کی تعداد موجودہ شرح کا تقریبا 20 فیصد ہونی چاہئے۔‘‘
سوہنی ہاکسن کے بقول سویڈن ڈیموکریٹس، جس بات کو ذمہ دارانہ امیگریشن پالیسی کا نام دیتے ہیں، اس کی رو سے آئندہ اس ملک سے زیادہ سی زیادہ غیرملکیوں کو ملک بدر بھی کیا جانا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ سویڈن میں رہنے والے، جو غیر ملکی تارکین وطن جرائم کے مرتکب پائے جائیں، انھیں بلاتاخیر ان کے آبائی وطنوں میں بھجوا کر داخلی سلامتی کوبہتر بنانے کی کوششیں کی جانی چاہئے۔
سویڈن ڈیموکریٹس کی سیاسی مقبولیت میں اضافے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس ملک میں سال ہا سال تک غیر ملکی تارکین وطن کو بڑی تعداد میں اپنے ہاں قبول تو کیا، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے سویڈن کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں کے بہتر سماجی انضمام کی زیادہ کو ششیں نہیں کی گئیں۔
اس سویڈش سیاسی جماعت کے رہنما جمی ہاکیسن ہیں۔ جمی کے نقاد انہیں نسل پرست قرار دیتے ہیں لیکن وہ خود اس سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے بقول امیگریشن پالیسی پر تنقید کرنا نسل پرستی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سویڈن میں چند خاص نسلی گروپوں کو خاص طرح کے حقوق حاصل نہیں ہونے چاہئیں۔
جمی ہاکیسن کے بقول سویڈن میں مذہبی آزادی پائی جاتی ہے، جو آئندہ بھی ہونی چاہئے :’’لیکن میں اس بات کے خلاف ہوں کہ معاشرہ خود کو مسلم اقلیت کی سوچ کے مطابق تبدیل کرے۔‘‘
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر