سوچی کے خلاف مقدمہ: غیر ملکی سفیروں کی شرکت
20 مئی 2009نوبل امن انعام یافتہ 63 سالہ آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے تیسرے روز تقریبا 30 غیر ملکی سفارت کار اور پانچ مقامی صحافی بھی عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے بعد ان سے گفتگو میں سوچی نے کہا کہ وہ ان سے ملاقات کی اجازت کی منتظر تھیں۔ انہوں نے سماعت کے موقع پر موجود سفارت کاروں اور صحافیوں کی آمد اور حمایت کے لئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
سوچی نے گزشتہ 19میں سے 13سال نظربندی یا قید میں گزارے ہیں جبکہ وہ گزشتہ چھ سال سے اپنی ینگون کی رہائش گاہ پر نظر بند تھیں۔ ان کی نظربندی رواں ماہ 27 مئی کو ختم ہونے والی تھی کہ نئے الزامات کے تحت ان کو جیل منتقل کر دیا گیا۔
آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 1990ء کے انتخابات میں کامیاب رہی تھی۔ تاہم میانمار کی فوج نے انہیں اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا۔ مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ نئے الزامات کے تحت بھی فوجی حکومت سوچی کو آئندہ سال ہونے والے انتخابات سے دُور رکھنا چاہتی ہے۔
میانمار میں، جو پہلے برما کہلاتا تھا، سوچی کو جمہوریت پسند رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں آمریت کا نظام بدل کر جمہوریت کا نفاذ پہلا قدم ہے، یہ کام مشکل بھی ہے۔ تاہم یہ ہوجائے تو عوام جمہوری معاشرے کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لائق بھی ہوجائیں گے۔'
سوچی کواپنی نظربندی کے ضوابط کی خلاف ورزی کے الزام میں جیل منتقل کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک امریکی شہری جان ولیم کو اپنے گھر پر قیام کی اجازت دی۔ ویلیئم قریبی جھیل میں سے تیر کر ان کے گھر پہنچا تھا۔
آنگ سان سوچی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ولیم کو مدعو نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنے طور پر وہاں پہنچا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی دباؤ کی وجہ سے ینگون حکومت مقدمے کو جلد نمٹانا چاہتی ہے اور اس کا فیصلہ آئندہ ہفتے متوقع ہے۔
اس مقدمے میں الزامات ثابت ہونے پر اِس جمہوریت پسند خاتون رہنما کو کم از کم پانچ سال کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔ سوچی کے خلاف نئے مقدمے اور ان کی جیل منتقلی پر عالمی برادری کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ یورپی یونین اور جنوب مشرقی اییشیائی ممالک کی تنظیم آسیان نے اس حوالے سے ینگون حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوچی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔