1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات: معاہدہ عوام کے ساتھ کیا ہے طالبان کےساتھ نہیں، اے این پی رہنما

16 فروری 2009

پاکستان کے صوبہِ سرحد میں صوبائی حکومت نے شورش زدہ مالاکنڈ ڈوژن اور ضلع کوہستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ شریعت کے نفاذ سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GvSb
افغانستان سے ملحق پاکستان کے صوبہِ سرحد کے علاقے سوات میں حکومت طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرتی رہی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

سرحد حکومت نے طالبان کے ساتھ اس معاہدے کو نظامِ عدل قرار دیا ہے۔ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان سیاسی جماعتوں اور کلعدم عسکری تنظیم نفاذِ شریعتِ محمدی کے مابین ہونے والے ایک مشترکہ جرگے کے اختتام پر کیا۔ واضح رہے کہ سوات کا علاقہ مالاکنڈ ڈوژن میں آتا ہے اور یہاں طالبان عسکریت پسندوں اور پاکستانی افواج کے درمیان خاصے عرصے سے لڑائی جاری ہے۔

Chaos und Gewalt in Pakistan Besetzte Polizeistation nahe der afghanischen Grenze Musharraf verhängt Ausnahmezustand in Pakistan
سوات عملی طور پر طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہےتصویر: AP


معاہدے کی رو سے طالبان دس روز کے لیے جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ہیں اور پاکستانی حکّام کی کوشش ہے کہ عسکریت پسند مستقل طور پر ہتھیار پھینک دیں۔ وزیرِ اعلی سرحد کے مطابق معاہدے پر مکمل عمل درآمد ان علاقوں میں امن قائم ہونے کے بعد ہوگا۔ حکومتی اہلکار کافی عرصے سے طالبان رہنما ملّا صوفی محمّد کے ساتھ مذاکرت کر رہے تھے۔

معاہدے کے ناقدین کا موقف ہے کہ اس نوعیت کے معاہدے ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں مگر ان پر عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا۔ نہ صرف یہ، ان معاہدوں کے بعد طالبان عسکریت پسند ہر بار زیادہ طاقت ور ہوکر سامنے آتے رہے۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکیولر جماعت کیوں کر مذہبی عناصر کے ساتھ نفاذِ شریعت کا معاہدے کرسکتی ہے۔ اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امین خٹک نے ڈائچے ویلے اردو سروس کو بتایا کہ ان کی جماعت صوبے میں امن قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ معاہدہ نظامِ عدل ہے نہ کہ نظامِ شریعت۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوات میں ایک مدّت سے فوجی آپریشن جاری ہے مگر محض چند سو عسکریت پسند ہی اب تک مارے گئے ہیں جب کہ ان کی جماعت کی کوشش ہے کہ انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جاسکے۔ ان کی رائے میں ملّا صوفی محمّد ایک اعتدال پسند رہنما ہیں۔

Richard Hoolbroke
رچرڈ ہالبروک نے چند روز قبل ہی پشاور کا دورہ کیا تھا اور صوبے کے اعلیٰ حکّام سے بات چیت کی تھیتصویر: picture-alliance / dpa


اے این پی کے رہنما امین خٹک کا یہ موقف بھی ہے کہ مذکورہ معاہدہ ان کی جماعت نے طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ عوام کے ساتھ کیا ہے اور یہ کہ ’نظامِ عدل‘ کے زریعے ان علاقوں کے عوام کو جلد انصاف ملے گا۔

ایک سوال پر کہ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے لیے مقرّر کیے گئے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک کی چند روز قبل پشاور آمد اوراعلیٰ حکّام سے ملاقات کے بعد ہی طالبان کے ساتن ایسا معاہدے کیوں کر ممکن ہوا، امین خٹک نے کہا کہ اس بات سے رچرڈ ہالبروک کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ یہاں صرف علاقے کو سمجھنے کے لیے آئے تھے۔ امین خٹک کے مطابق اب پاکستانی حکّام اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ سابق صدر پرویز مشرّف کی اقتدار کو طول دینے کے لیے طالبان کو مضبوط کرنے کی پالیس کو ترک کرکے رچرڈ ہالبروک کو درست حقائق سے آگاہ کیا جائے۔