1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنکیانگ کے انتہا پسندوں کی تربیت: چین کا شامی حکومت اور اپوزیشن پر الزام

عابد حسین1 جولائی 2013

چین کے مغربِ بعید میں واقع علاقے سنکیانگ میں گزشتہ چار برسوں سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے سنکیانگ کے انتہا پسندوں کی تربیت کا الزام شامی حکومت اور اپوزیشن باغیوں پر لگایا ہے۔

https://p.dw.com/p/18yyG
تصویر: AFP/Getty Images

چین روایتی طور پر سنکیانگ میں پرتشدد کارروائیوں کا ذمہ دار ترک زبان بولنے والے ایغور مسلمانوں پر رکھتا چلا آ رہا ہے۔ چینی حکام کا خیال ہے کہ اس علاقے میں ایغور مسلمان علیحدگی پسند سرگرم ہیں، جو ایک آزاد ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں۔ سنکیانگ کے علیحدگی پسند اس ریاست کو مشرقی ترکستان کا نام دیتے ہیں۔ سنکیانگ میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سرگرم عمل ہے۔

Unruhen in China Xinjang Juni 2013
ارمچی کی تقریباً تمام گلیوں اور سڑکوں پر اب چین کے یہی نیم فوجی دستے گشت کرتے دکھائی دیتے ہیںتصویر: AFP/Getty Images

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایسا پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ چین نے سنکیانگ میں حالیہ تشدد کی لہر کے بعد اس میں شام کی حکومت اور اپوزیشن باغیوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ اس سے قبل چینی حکام سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندوں کی تحریک کے رابطے پاکستان سمیت کچھ اور ممالک سے جوڑتے رہے ہیں۔ چینی سکیورٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنکیانگ میں جاری تحریک کا مقامی آبادی کے غم و غصے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری جانب سنکیانگ کے ایغور مسلمان اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کو مسلسل کئی اقسام کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ایغور آبادی کے مطابق یہ پابندیاں ان کی ثقافت، زبان اور مذہب کو محدود کرنے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ ایغور کے اس مؤقف کے جواب میں بیجنگ کا اصرار ہے کہ سنکیانگ میں انتہاپسندی کا فروغ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے۔

دو روز قبل چین کے صدر شی جِن پِنگ نے ایک اعلیٰ سطحی فورم کی صدارت کرتے ہوئے سنکیانگ میں امن و سلامتی بحال رکھنے کو اہم قرار دیا۔ صدر کے اس بیان کے بعد پیرا ملٹری دستوں کی ایک بڑی تعداد کو شورش زدہ علاقے سنکیانگ کے مرکزی شہر اُرمچی میں بھیج دیا گیا ہے۔ ارمچی کی تقریباً تمام گلیوں اور سڑکوں پر اب چین کے یہی نیم فوجی دستے گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران اُرمچی میں دو دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم پینتیس افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ چینی حکومت نے اس کی ذمہ داری مذہبی انتہا پسند حلقوں پر عائد کی ہے۔

China Polizei in Lukqun Provinz Xinjiang nach Unruhen 27.06.2013
گزشتہ ہفتے کے دوران اُرمچی میں دو دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم پینتیس افراد کی ہلاکت ہوئی ہےتصویر: Mark Ralston/AFP/Getty Images

چینی حکومت کی جانب سے بظاہر حملہ آوروں کی نسلی شناخت نہیں بتائی گئی لیکن ایک ایغور مسلمان احمد نیاز صدیق پر انگلی اٹھائی گئی ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی گزشتہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے حملوں میں ملوث ہیں۔ احمد نیاز صدیق کے بارے میں تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان پیپلز ڈیلی کے زیر انتظام چٹ پٹی خبروں والے اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق ایسٹ ترکستان موومنٹ کے بعض اراکین ترکی سے ہوتے ہوئے شام پہنچ چکے ہیں اور وہیں پر ان کو تربیت دی گئی ہے۔ گلوبل ٹائمز کے رپورٹر کے مطابق چین کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کے پاس ایسی رپورٹیں ہیں کہ ایسٹ ترکستان تحریک کے اراکین سن 2012 میں شام پہنچے اور انتہا پسندوں کے ہمراہ حکومتی فوج کے خلاف جھڑپوں میں بھی حصہ لیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے سنکیانگ میں عدم استحکام کی وجہ تین برائیوں کو قرار دیا ہے اور وہ ہیں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی۔