1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنوڈن معاملہ: یورپ امریکا سے جھگڑا نہیں چاہتا

جینیفر فرانکسیک، عاطف توقیر4 جولائی 2013

امریکی ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار اور خفیہ امریکی دستاویزات سامنے لانے والے ایڈورڈ سنوڈن نے متعدد یورپی ممالک سے بھی سیاسی پناہ مہیا کرنے کی درخواست کی ہے، تاہم یورپ میں اس کی درخواست قبول ہوتی نظر نہیں آتی۔

https://p.dw.com/p/192IS
تصویر: Reuters

سیاسی ماہرین کے مطابق یورپی ممالک سنوڈن کو پناہ دے کر امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے۔اطلاعات ہیں کہ اب تک سنوڈن تقریبا 21 ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کر وا چکے ہیں۔ کچھ ممالک نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ وینیزویلا سمیت کچھ ممالک کی جانب سے اسے مثبت جواب ملا ہے جب کہ زیادہ تر ممالک تکنیکی بنیادوں پر اس کی درخواست رد کر چکے ہیں۔

ایڈورڈ سنوڈن نے جرمنی میں بھی پناہ کی درخواست جمع کروائی تھی۔ اس کا موقف تھا کہ اسے امریکا میں شدید سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے اسے سیاسی پناہ دی جائے، تاہم جرمنی نے اس کی یہ درخواست مسترد کر دی۔

Morales Abflug Wien 03.07.2013
بولیویا کے صدر کا طیارہ آسٹریا میں اتار لیا گیا تھاتصویر: Reuters

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کچھ جرمن سیاستدانوں نے اس حکومتی فیصلے کو ’منافقانہ‘ قرار دینے ہوئے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم جرمنی ہی وہ واحد ملک نہیں جو امریکا کے ساتھ جھگڑے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ فرانس اور پرتگال نے بھی بدھ کے روز جنوبی امریکی ریاست بولیویا کے ایک طیارے کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے روک دیا۔ اس طیارے میں بولیویا کے صدر ایوو مورالیس اور دیگر حکومتی شخصیات سوار تھیں۔ اطلاعات کے مطابق فرانس اور پرتگال کو خدشہ تھا کہ اس طیارے میں سنوڈن سوار ہو سکتا ہے۔ اس طیارے کو بعد میں آسٹریا میں اتار کر اس کی مبینہ تلاشی لی گئی تھی۔

یہ بات فی الحال واضح نہیں کہ آیا یورپی ممالک کو امریکا کی جانب سے اس سلسلے میں براہ راست دباؤ کا سامنا ہے یا نہیں۔ فری یونیورسٹی برلن سے وابستہ ماہر سیاسیات کرسٹیان لامرٹ کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے یہ اقدام امریکا کے ساتھ ’دوستی اور تعاون‘ کا اظہار ہے۔ لامرٹ کے مطابق، ’سلامتی کے شعبے میں اشتراک عمل، جو کہ خفیہ اداروں کے درمیان بھی ہے، بہت اچھا جا رہا ہے۔ سیاسی سطح پر آج کل امریکا اور یورپ کے درمیان فری ٹریڈ زون کے سلسلے میں بھی مذاکرات ہونے و الے ہیں۔ ایسے میں کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ان ممالک کے درمیان سیاسی فضا خراب نہ ہونے پائے۔‘

لامرٹ کے مطابق جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے امریکا کے این ایس اے کے جاسوسی کے پروگرام سے خاصا فائدہ اٹھایا ہے۔ لامرٹ کے مطابق، یورپ اور امریکا کے درمیان آزاد تجارت کی وجہ سے بھی یورپ کو کئی بلین یورو کا فائدہ پہنچ رہا ہے اور اس سے فریقین کو معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

ہیمبرگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈیٹلف یُنکر کا کہنا ہے، ’دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا ایک بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا ہے، ایک ایسی قوت، جس کے اخراجات دنیا بھر میں دفاعی اخراجات کا نصف بنتے ہیں، جس کے جزوی طور پر خفیہ کوئی ایک ہزار اڈے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جو دنیا کے کسی بھی مقام کو بیس منٹ کے اندر اندر راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہے اور جسے سرد جنگ کے بعد اس امر کو یقینی بنانے کا مشن ملا تھا کہ مستقبل قریب میں کسی بھی براعظم پر کوئی بھی دوسری طاقت امریکا کے قائدانہ کردار کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔‘

ایسی صورت حال میں یہ بات واضح ہے کہ کوئی یورپی ملک سنوڈن کو پناہ دے کر امریکا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنا نہیں چاہے گا۔