1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنوڈن روس میں سیاسی پناہ کے متمنی

عاطف توقیر13 جولائی 2013

امریکی خفیہ معلومات افشاء کرنے والے سابق این ایس اے اہلکار نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ جب تک وہ لاطینی امریکا نہیں جا سکتے، تب تک وہ روس میں سیاسی پناہ کے متمنی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1978l
تصویر: Reuters

گزشتہ تقریباﹰ تین ہفتوں سے ماسکو ایئر پورٹ کے ٹرانزٹ ایریا میں مقیم ایڈورڈ سنوڈن اس عرصے میں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر سامنے آئے ہیں اور انہوں نے یہ بیان جاری کیا ہے۔

ماسکو کے شیریمیٹیوو ایئر پورٹ پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء کے ہمراہ ڈرامائی طور پر سامنے آنے والے سنوڈن کی جانب سے اس بیان کو ایک مشکل صورتحال میں کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کا نام دیا جا رہا ہے۔ سنوڈن نے امریکی انتظامیہ کے اس خفیہ پروگرام کی معلومات فاش کر دیں تھیں، جس کے مطابق امریکا لوگوں اور اداروں کی نگرانی کا ایک نظام جاری رکھے ہوئے ہے۔ معلومات کے افشاء ہونے کے بعد امریکا نے سنوڈن کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا تھا۔

Snowden trifft Aktivisten und Politiker am Moskauer Flughafen
گزشتہ تین ہفتوں میں سنوڈن پہلے مرتبہ عوامی سطح پر سامنے آئےتصویر: DW/J.Winogradow

سنوڈن کے اس اعلان کے بعد واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے ماسکو کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے سے باز رہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کے مطابق، ’سنوڈن کو پروپیگنڈا کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنا، روس کی جانب سے ماضی میں اس معاملے میں نہ پڑنے سے متعلق بیانات کی نفی کرے گا‘۔

جے کارنی نے کہا کہ ایسا کوئی قدم روس کی جانب سے مہیا کی جانے والی ان ضمانتوں کی بھی خلاف ورزی ہو گا، جن میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ سنوڈن کی جانب سے امریکی مفادات کو مزید نقصانات پہنچانے کے حق میں نہیں ہے۔

اسی دوران جمعے کے روز امریکی صدر باراک اوباما نے روسی صدر پوٹن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ ٹیلی فون گفتگو پہلے سے طے شدہ تھی تاہم اس دوران ہونے والی بات چیت کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس گفتگو میں سنوڈن کا معاملہ لازمی طور پر زیر بحث آیا ہو گا۔

امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے تیس سالہ سابق کنٹریکٹر سنوڈن نے ماسکو ایئر پورٹ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت حقوق انسانی کی متعدد دیگر تنظیموں کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ انہیں یہ معلومات افشاء کرنے پر کوئی ’پچھتاوا‘ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’لوگوں کو یہ بتانے کا اخلاقی فیصلہ کہ کس طرح ان کی نگرانی کی جا رہی ہے اور کس طرح ان کی زندگیوں پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں، مہنگا ضرور ہے مگر یہ ایک درست قدم تھا، جو میں نے اٹھایا‘۔