1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں فنکشنل لیگ کا احتجاج

16 مئی 2013

انتخابات میں ضابطگیوں کے خلاف احتجاج کرنے والی جماعتوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔ دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہونے کے باعث فنکشنل لیگ کا احتجاج اندرون سندھ کے دیہاتوں سے نکل کر کراچی تک آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/18ZKb
تصویر: Reuters

مسلم لیگ فنکشنل جو انتخابات سے قبل سندھ میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی، انتخابی نتائج سامنے آنے پر حیران بھی ہے اور پریشان بھی۔ کیونکہ نتائج کے مطابق اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ فنکشنل لیگ نے صدائے احتجاج بلند کرنے میں تاخیر کی۔ اب انتخابات والے دن سے ہی متحدہ قومی موومنٹ پر دھاندلی کے الزامات عائد کرنے والی جماعت اسلامی بھی فوری فنکشنل لیگ کے ساتھ جاملی ہےاور ہڑتال کی حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے۔ لیکن جماعت تحریک انصاف یہ کام بھی اکیلے ہی سرانجام دے رہی ہے۔

Imran Khan PTI Pakistan
تحریک انصاف نئی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہےتصویر: Reuters

سیاسی امور کے ماہر پروفیرس رسول بخش رئیس تحریک انصاف کو مستقبل کی نئی سیاسی قوت اور بڑی جماعتوں کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے میں پاکستان میں بڑا سیاسی انقلاب آچکا ہے۔ پیلپز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعت تین صوبوں میں ختم ہوچکی ہےاور سندھ میں نشستیں حاصل کرنے والے اسی فیصد وڈیرے، جاگیردار اور پیر ہیں۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو ماضی طرح مسقبل میں بھی ساتھ لے کر چلنے کی خواہش مند ہے اور ایم کیو ایم کو باقاعدہ طور پر سندھ حکومت میں دعوت بھی دی جاچکی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم آج کل ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ اگریہ صوبے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتی ہے تو وفاق میں اسے حزب اختلاف میں بیٹھنا پڑ سکتا ہے اور اگر وفاق میں نواز لیگ کی شریک بنتی ہے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ماضی کی تلخ یادیں تازہ ہوسکتی ہیں۔ اسی بنا پر تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اگر ایم کیو ایم کو نواز لیگ کے ساتھ چلنا ہے تو اپنی روش بدلنا ہوگی۔

عوامی آراء کے مطابق تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دھرنوں کے جواب میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ایک متنازعہ بیان نے خود ان کے لیے نئی مشکلات کو جنم دیا ہے۔ برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں نے الطاف حسین کے خلاف حکومت برطانیہ کو شکایات ارسال کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ پاکستان میں متعین برطانوی سفیر ایڈمن تھامسن کو اس حوالے سے وضاحت کے لیے نیو کانفرنس بلانی پڑی۔ معروف کالم نگار اور تجزیہ کار مقتدیٰ علی خان منصور کے مطابق ’’ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں کمی کی توقع تو کی جارہی تھی لیکن پارٹی کی کامیابی غیر متوقع نہیں ہے۔ تحریک انصاف نئی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مذہبی جماعتوں کے ساتھ جو ہوا یہ بھی بہت حد تک متوقع تھا‘‘۔

Frei für Social Media Quelle: http://en.wikipedia.org/wiki/File:Altaf_Hussain_MQM.jpg Altaf Hussain (Urdu: الطاف حسین‎) (born 17 September 1953 in Karachi) is the founder and leader of the Muttahida Quami Movement (MQM).[1] The MQM emerged as the third largest political party in the national assembly of Pakistan during 1988[2] and 1990[3] elections. The MQM secured representation in the parliamentary elections held in the northern areas of Pakistan comprising Kashmir[4] & Gilgit-Baltistan.[5] Since 1992 he has lived in the United Kingdom in self exile after surviving an assassination attempt in Pakistan.[6] Altaf Hussain picture
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ایک متنازعہ بیان نے خود ان کے لیے نئی مشکلات کو جنم دیا ہےتصویر: Usama1993/cc/by/sa

فرانسسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے وابسطہ سینئر صحافی اشرف خان کے مطابق ایم کیو ایم کے اقدامات نواز لیگ کی ممکنہ حکمت عملی کو کاؤنٹر کرنے کا ایک انداز معلوم ہوتے ہیں۔’’ کیونکہ نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں ایم کیوا یم کے خلاف دو مرتبہ آپریشن کیا گیا۔ لہذا نواز لیگ کی انتخابات میں کامیابی ایم کیو ایم کے لیے کہیں نہ کہیں پریشانی کا سبب ہے‘‘۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی باآسانی سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی مگر پیپلز پارٹی کی درینہ حلیف ایم کیو ایم کا کردار اس وقت تک واضح نہیں ہوگا جب تک مرکز میں حکومت سازی کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا۔

رپورٹ: رفعت سعید

ادارت: عدنان اسحاق