1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع

رفعت سعید، کراچی9 جولائی 2015

سندھ حکومت نے ایک ہفتے کے پس و پیش کے بعد بالآخر رینجرز کو کراچی میں قیام امن کے لیے دیے گئے خصوصی اختیارات میں ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fvq8
تصویر: picture-alliance/dpa/Sindh Rangers/Handout

رینجرز کو حکومت سندھ کی جانب سے گزشتہ برس پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس کے تحت چھاپہ مارنے اور تفتیشن کے لیے ملزمان کو حراست میں رکھنے کے اختیارات دیے گئے تھے جس کی مدت اٹھارہ جولائی کو ختم ہو رہی تھی۔ عام تاثر یہی تھا کہ حکومت ماضی کی طرح رینجرز کو دیے گئے اختیارات میں با آسانی توسیع کردے گی لیکن پہلے رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارکر ریکارڈ تحویل میں لیا اور پھر فِش ہاربر کے عہدیداروں کے گھروں پر چھاپے مارکر گرفتاریاں کیں تو سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو تشویش ہوئی اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے رینجرز کی کاروائیوں پر کھل کا اظہار ناراضگی کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے پارٹی اجتماع میں فوج کو براہ راست ہدف تنقید بنایا۔

رینجرز کاروائیوں سے براہ راست متاثرہ ایم کیو ایم نے صورت حال کو غنیمت جانا اور پیپلز پارٹی کی آواز میں آواز ملائی۔ رینجرز نے ایم کیو ایم میں موجود مبینہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تو کاروائیاں جاری رکھیں تاہم پیپلز پارٹی کے احتجاج کے بعد رینجرز نے مزید کسی سرکاری دفتر یا سرکاری عہدیدار کی گرفتاری کے لیے چھاپہ نہیں مارا۔

رینجرز کا مؤقف تھا کہ زمینوں کی بندر بانٹ، پانی چوری اور فش ہاربر سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور بعض سرکاری عہدیدار شہر میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے کارروائی ضروری ہے۔

اس تمام عرصے میں سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کے چیف غلام قادر کا اور فش ہاربر کے چیئرمین نثار مورائی کا خاصا ذکر رہا مگر دونوں ہی رینجرز کے ہاتھ نہ آسکے اور صورت حال کا فائدہ اٹھا کر بلدیہ اعظمٰی کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو سمیت کئی دیگر افراد بھی بیرون ملک روانہ ہوگئے۔

سندھ حکومت کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اختیارات میں توسیع مشروط ہے اور ان شرائط کو رینجر ز نے تسلیم کیا ہے۔ سرکاری محکموں میں چھاپوں سے قبل وزیر اعلٰی کو مطلع کیا جائے گا اور رینجرز جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنے والے سرکاری عہدیداروں سے متعلق معلومات کا تبادلہ بھی کریں گے۔

مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی نے اختیارات کی منظوری کو سندھ اسمبلی سے منظور کرانے کا کارڈ بہت کیلکولیشن کے بعد کھیلا تھا۔ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم ہے جبکہ بقیہ جماعتوں میں فنکشنل لیگ، نواز لیگ اور تحریک انصاف کے چار اراکین ہیں۔ لہٰذا اختیارات کی منظوری اسمبلی سےتو ممکن نہیں تھی اور یہ معاملہ اسمبلی سے باہر ہی طے ہونا تھا۔

رینجرز کی کارروائیوں سے کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں نمایاں کمی ہوئی ہے
رینجرز کی کارروائیوں سے کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں نمایاں کمی ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک ہفتے کے دوران تین مرتبہ وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ سے ٹیلی فون پر بات کی۔ تیسری فون کال پر معاملات طے ہوجانے کے بعد وزیر اعلٰی نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آگاہ کیا اور پھر آصف زرداری نے بھی اس ڈیل کی منظوری دی۔

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں کراچی دودھ دینے والی گائے ہے لہٰذا کوئی بھی اسٹیک ہولڈر اپنے حصے کا دودھ قربان کرنے کو تیار نہیں۔ رینجرز پر بھی خلاف قانون پانی اور دیگر کئی طرح کے کاروبار میں ملوث ہونے کا الزام ہے جبکہ تقریباً 26 سال سے کراچی میں موجود رینجرز کے بعض اہلکار دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔

2002ء میں پرویز مشرف پر حملے کی سازش میں رینجرز انسپکٹر کی گرفتاری، 2011ء میں کلفٹن کے پارک میں رینجرز اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت کی ویڈیو اور گزشتہ دو برسوں میں اہلکاروں کی فائرنگ کے واقعات میں تین شہریوں کی ہلاکت سے رائے عامہ رینجرز کے خلاف ہوئی۔ گزشتہ برسوں میں پولیس نے رینجرز اہلکاروں پر مشتمل موٹر سائیکل چوری کرنے والا ایک منظم گروہ بھی گرفتار کیا جبکہ رینجرز اہلکار دیگر کئی جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔

مگر رینجرز جب تک ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کر رہی تھی تو گورنر سندھ کی حیثیت تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی لیکن سندھ حکومت کے ساتھ کشمکش کے بعد ڈی جی رینجرز نے گورنر سندھ سے ملاقات کی۔ جبکہ کور کمانڈر کراچی بھی وقتاً فوقتاً رینجرز ہیڈکوارٹرز کا دورہ کر کے یہ پیغام دیتے رہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا وزن کس پلڑے میں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رینجرز کی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں سے کراچی کی صورت حال پر مثبت اثرات ہوئے ہیں اور ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔