1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں 40 لاکھ بچے تعلیم سے محروم، یونیسف

عنبرین فاطمہ، کراچی28 اپریل 2015

بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے چار ملین کے قریب بچے تعلیم کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FGKH
تصویر: DW/F. Khan

اقوام متحدہ کے ادارے یونسف اور وفاقی محتسب کے نیشنل چلڈرن کمپلینٹ آفس کی جانب سے جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے تمام صوبوں اور دیگر انتظامی علاقوں میں خواندگی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخواہ، فاٹا، گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے بارے میں تعلیمی صورت حال سے متعلق اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں ایسے بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے جو اسکول نہیں جاتے۔

نیشنل کمشنر برائے چلڈرن کمپلینٹ آفس اعجاز احمد قریشی کے مطابق، ’’صوبہ سندھ میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے تقریباً چالیس فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس طرح ایسے بچوں کی تعداد چار ملین کے قریب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی سطح پر لڑکیوں یا خواتین کی شرکت بھی ایک بڑا چیلینج ہے۔‘‘

رپورٹ کے مطابق سندھ میں لڑکے اور لڑکیوں کے اسکول میں داخلوں کے تناسب میں بھی کافی زیادہ فرق ہے۔ یہ فرق دیہی علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے جہاں بچیوں کے پرائمری اسکولوں میں داخلوں کا تناسب صرف 31 فیصد تھا۔ رپورٹ میں بچیوں کے اسکولوں میں کم داخلوں کی وجوہات میں خواتین دوست سہولیات کی عدم دستیابی مثلاً علیحدہ ٹوائلٹ، اسکول کی باونڈری دیواریں نہ ہونا اور خواتین اساتذہ کی کمی کو قرار دیا گیا ہے۔

Pakistan - Studenten verlangen nach mehr Ausbildung
پاکستان میں بہت کم بچے ہائی اسکولوں تک پہنچتے ہیںتصویر: DW/A. Gran

یونیسف اور چلڈرن کمپلینٹ آفس کی اس رپورٹ کے مطابق تعلیم کی جانب راغب نہ ہونے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اسکولوں کی کمی، موجودہ اسکولوں کا ابتر انفراسٹرکچر، تعلیمی مواد اور کمیونٹی کی سطح پر بامعنی شرکت کا نہ ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم نا مکمل چھوڑنا، طالب علموں سے سیکھنے کے جس درجے کی توقع کی جاتی ہے اس کی عدم موجودگی اور غیر منظم نجی اسکول بھی نا خواندگی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔

ساوتھ ایشین فارم فارایجوکیشن ڈویلپمنٹ (SAFED) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی سندھ اور خصوصاً دیہی علاقوں میں خواندگی کی ابتر صورتحال کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ سندھ کے چھ اضلاع میں کیے جانے والے ایک جائزے کے بعد پیش کی گئی تھی۔ اس کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں 32 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور اردو یا سندھی میں تحریر جملے نہیں پڑھ سکتے۔ ان اضلاع کے 66.5 فیصد بچے انگریزی میں لکھی تحریر نہیں پڑھ سکتے جبکہ 73فیصد بچے سادہ دو عددی تفریق کے سوالات بھی حل نہیں کر سکتے۔

سندھ میں اتنی بڑی تعداد میں ناخواندگی کی ایک اور بڑی وجہ ’گھوسٹ اسکول‘ کی موجودگی ہے جن کا وجود صرف کاغذات تک محدود ہے۔ ان بھوت اسکولوں کے حوالے سے کام کرنے والی ایک اور غیر سراری تنظیم NOW COMMUNITY سے وابسطہ کارکن ولیم صادق کہتے ہیں، ’’یہ صورتحال صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمارے شہری علاقوں میں بعض سرکاری اسکولوں کی یہ حالت ہے کہ والدین ان اسکولوں میں بچوں کو داخل نہیں کراتے مگر کاغذات دیکھے جائیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں بتایا جا رہا ہے کہ اس اسکول میں دو سو سے بھی زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔ اور ایسے بھی کئی اسکول سامنے آئے ہیں جہاں بچوں کی تعداد ایک یا دو ہوتی ہے اور دس سے گیارہ ٹیچر اس اسکول میں پڑھاتے ہیں۔‘‘

اندرون سندھ تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساکار سوشل ویلفیئر کے جنرل سیکرٹری ریاض حسین چانڈیو نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’ہمارے سروے کے مطابق ہر ایک یونین کونسل میں اوسطا دو اسکول بند ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ لاڑکانہ جیسے شہروں کے اساتذہ کی ڈیوٹی اگر گاؤں کے اسکولوں میں لگ جائے تو وہاں وہ ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ دوسری بڑی وجہ محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کی بدعنوانی ہے۔ وہ ایسے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ کا چار فیصد لیتے ہیں اور کاغذات میں ان کی حاضری ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس نظام کو یہاں ویزا سسٹم کہا جاتا ہے۔‘‘

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دو برس قبل سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صوبے کے 6,721 گورنمنٹ اسکول اس وقت کام نہیں کر رہے تھے۔ یہ رپورٹ ملکی سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی طرف سے متعلقہ علاقوں اور اسکولوں کے باقاعدہ معائنوں کے بعد تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کُل 48 ہزار اسکولوں میں سے سات ہزار کے قریب ان اسکولوں کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل بجٹ فراہم کیا جا رہا تھا۔