1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے اعتراضات مسترد

7 جولائی 2023

پاکستانی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پرعملدرآمد کے لیے پرعزم ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق اگر اس تاریخی ڈٰیل پر بھارت کو کوئی اعتراض ہے تو اسے سندھ طاس معاہدے میں وضع کردہ اصولوں کے تحت حل کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4TYqH
Indien Kaschmir Fluss Indus
تصویر: mitrarudra/agefotostock/IMAGO

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ اسلام آباد حکومت کو امید ہے کہ بھارت بھی سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے مابین آبی تقسیم کے اس معاہدے کی کامیابی کی خاطر پاکستان ہر ممکن وسیلہ بروئے کار لائے گا۔

جمعرات کو دی ہیگ میں قائم عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے بھارت کے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا تھا، جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان جس انداز میں پانی کا استعمال کر رہا ہے، وہ متنازعہ ہے۔ تاہم بھارت نے اس عدالت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی آزاد چھان بین کرا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی کو حتمی شکل دی گئی تھی، جسے سندھ طاس معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اس معاہدے پر بطور تیسرے فریق دستخط کیے تھے اور کسی اختلاف کی صورت میں یہی عالمی ادارہ دنوں ممالک کے مابین ثالثی کراتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے پاک بھارت آبی تنازعے پر اثرات

پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟

  سندھ طاس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسم کو یقینی بنایا ہے۔

  سندھ طاس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسم کو یقینی بنایا ہے۔تصویر: AP/DW

پاکستان اور بھارت اس ڈیل کے تحت اس پانی کا استعمال کچھ خاص مقاصد کے لیے ہی کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر چھوٹے پن بجلی بنانے کے کوئی منصوبہ، جس میں پانی زیادہ ذخیرہ نہیں کیا جاتا ہے تاہم اگر کوئی بڑا منصوبہ ہو جیسا کے ڈیم بنانے کا تو اس کے لیے سندھ طاس معاہدے میں فریقین کی رضا مندی لازمی قرار دی گئی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس گزشتہ چند برسوں سے تنقید کی زد میں ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے یہ ڈٰیم بنا لیے تو پاکستان کو آبپاشی کے لیے ملنے والے پانی کا اسّی فیصد متاثر ہو گا۔ تاہم بھارت کا اصرار ہے سندھ طاس معاہدے کے تحت نئی دہلی کو یہ ڈیم بنانے کی اجازت ہے۔ بھارتی حکومت نے ان منصوبوں کی بنیاد سن 2018 میں رکھی اور اس کے لیے تعمیراتی کام جاری ہے۔

سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کو تشریح کا حق نہیں، بھارت

بھارت نے پاکستان کے ساتھ واٹر ڈیٹا کا تبادلہ بھی روک دیا

پاکستانی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے اس معاملے پر عالمی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھی۔ عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کے بعد ممتاز زہرا بلوچ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین مذکورہ متنازعہ پراجیکٹس کے مسئلے سندھ طاس معاہدے کے قواعد و ضوابط کے تحت حل کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ اسلام آباد حکومت اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی اور بھارت بھی نیک نیتی سے اس معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔

ع ب/ ع ا (خبر رساں ادارے)

انڈس ڈیلٹا تباہی کے دہانے پر