1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن 2020 مشکلات، مصائب، رنج و غم اور امید کا سال

29 دسمبر 2020

کووڈ انیس کے پہلے مریض سے لے کر ویکسین تک، اس سال جو کچھ بھی رونما ہوا وہ ناقابلِ نظیر ہے۔ ڈی ڈبلیو کی کیٹ فرگوسن نےختم ہوتے سال 2020 ء کو ساری دنیا کو تبدیل کر دینے والا برس قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3nKFj
DW Sendung To The Point TTPE Ferguson Kate
تصویر: DW

رخصت ہوتے سال کو ایک ایسا ناقابل اعتبار مسودہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے کردار بتدریج ظاہری بیانیے سے سوکھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ ہے اس ختم ہونے والے سال کے بارے میں میرا تاثر جو قریب بارہ مہینے قبل میری دفتری ڈیسک پر نازل ہوا تھا۔ اس سال میں جو کچھ ظاہر ہوا وہ ناقابلِ بیان ہے لیکن اب ہمیں اُس 'ناقابلِ بیان‘ کا پوری طرح ادراک کرنا ہو گا۔

مصائب اور پریشانیاں

سن 2020 میں جس مقدار میں مصائب اور پریشانیاں سامنے آئیں، ابھی ان کا شمار کرنا باقی ہے۔ سارا سال خبروں کا آغاز 'ایک نئی صورت حال‘ اور پھر اس میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں اور اس کی گرفت میں آنے والے نئے مریضوں کی تعداد کے بیان سے ہوتا رہا۔

تقابلی صورت حال کا اندازہ ملازمین کو دی جانے والی زر تلافی سے کیا جانے لگا۔ رواں برس گیارہ ستمبر تک پہلی عالمی جنگ سے دوگنا انسان امریکا میں موت کے منہ میں چلے گئے اور یہ تعداد ویتنام کی جنگ میں ہونے والی امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں سے چھ گنا زائد رہی۔ ابھی تک وبا کی شدت انسانی دماغ کے احاطے میں سمائی نہیں۔

حقیقت کیا ہے؟

بظاہر جو ممکن تھا، وہ ہوا نہیں۔ عالمی اقتصادیات کو زوال آ گیا اور بے بہا پیداواری عمل میں تعطل پیدا ہو گیا۔ کاربن کے اخراج میں کمی پیدا ہو گئی۔ مرکزی شاہراؤں پر گھاس نے اُگنا شروع کر دیا۔ لومڑیاں جنگلوں سے نکل کر شہروں کے قریب پھرنے لگیں۔

گھروں کے باورچی خانے دفتر بن گئے۔ افزائش یا بُوم نے زوم کو گلے لگا لیا۔ میرے شوہر کی کمپنی نے ملازمین کے لیے ہنر مندی کی کلاس کا آن لائن انتظام کر دیا۔ انہوں نے اون سے چڑیا بنانی سیکھ لی۔

سوشل میڈیا نے ناقص اطلاعات کی تردید شروع کر دی اور ان کی بھی وائرس کی طرح  افزائش روکنے کی کوشش کی گئی۔ نرسوں کی دم توڑتے مریضوں کے آخری جملے سامنے آنے لگے جو کورونا وائرس کی موجودگی کے انکار پر مبنی تھے۔ نرسنگ ہومز کے ملازمین کے چہرے کرخت اور وہ چڑچڑے ہونے لگے۔ بڑے بڑے مرد لیڈروں کو بھی وائرس نے اپنی گرفت میں لے لیا اور خاتون رہنماؤں کی واہ واہ ہونے لگی۔

انجام کار سائنس کو برتری حاصل ہوئی۔ تارک وطن جوڑے اُزلم توریچی اور اووگور شاہین کی لیبارٹری میں محنت رنگ لائی۔ انسانی جان بچانے والی ویکسین تیار ہو گئی اور یہ مختلف ملکوں میں پھیل گئی۔ پھر ساری دنیا میں ماسک پہنو، ہاتھ بار بار دھوئیں اور گھروں میں پابند ہو جائیں کی صدائیں گونجنے لگیں۔

سن 2021 میں داخل ہونے پر نگاہ

جمہوریت مزید کمزور شہ بن گئی ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ کی ابتدا میں امریکی صدر نے اسے ایک فرضی مسئلہ قرار دیا۔ الیکشن ہارنے کے بعد بھی اختتام سال پر یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔ چار سال تک ٹوئٹر پر ان کے پیغامات مسلسل پھیلتے رہے لیکن اب الیکشن کے بعد کا ٹوئیٹ ' انتخابات متنازعہ ہیں‘ پر ٹوئٹر انتظامیہ نے جھنڈا کھڑا کر دیا ہے۔

کمزور آوازوں کو بڑی ٹیکنیکل کمپنیوں کی رسہ کشی کا سامنا ہے کیونکہ عالمی اطلاعات کا بہاؤ انہی کے گرد گھومتا ہے۔ مغرب کا تفاخر ایسے ٹوٹا کہ ان اقوام نے اعتراف کیا کہ کئی اقوام نے وائرس کو کنٹرول کرنے میں بہتری دکھائی ہے۔ اب جلد ہی ماسک کی افادیت پر جاری بحث ایک مکمل قانون کی صورت اختیار کر لے گی۔ مجموعی طور پر مشکلات ایک جیسی نہیں ہیں۔ کچھ کو بدحالی نے گھیر لیا تو بعض کو عدم اطمینان کا سامنا ہے۔

جن کے پیارے سن 2020 میں کھو گئے ہیں، ان کا دکھ بیان نہیں ہو سکتا۔

کیٹ فرگوسن (ع ح، ع آ)