1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن 2017 میں شام میں ہلاکتوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائد

10 اگست 2018

شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ایک سرکاری جریدے ’الوطن‘ کے مطابق اس جنگ زدہ ملک میں  سن 2017ء میں 68 ہزار افراد جب کہ رواں برس سال اب تک 32 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/32xM8
Syrien Afrin islamistiche Milizen
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

جریدے کے سربراہ احمد رحال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ ہم نے گزشتہ برس 68 ہزار افراد اور اس سال 32 ہزار افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔‘‘ رحال نے ہلاک ہونے والوں کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ وہ شام کے کس حصے میں ہلاک ہوئے تھے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کیا یہ افراد شام میں جاری جنگ کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے؟

شام میں کچھ سماجی کارکنان شامی حکومت پر  جیل میں قیدیوں کی ہلاکت کو بھی جنگی حالات میں مر جانے والے افراد کی فہرست میں شامل کر دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ شام کی جیلوں میں ہزاروں شامی شہری قید ہیں۔ ان قیدیوں کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انہیں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق بھی نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اپنے اہل خانہ سے ملنے دیا جاتا ہے۔ رحال کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’ جب بھی کسی سرکاری محکمے سے کوئی دستاویز آتا ہے جو کسی کی ہلاکت کی تصدیق کرتا ہے، اس میں یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ آیا یہ شخص لا پتہ تو نہیں ہے ۔‘‘

کیا ہوا اگر میں مسلمان ہوں؟ شامی مہاجر خاتون

شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک نیٹ ورک نے حالیہ مہنیوں میں قریب 400 ایسے کیسز کے بارے میں تفصیلات لکھی ہیں جن کے اہل خانہ کو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا قیدی رشتہ دار جیل میں ہلاک ہو گیا ہے۔ ان چار سو افراد میں نو بچے بھی شامل ہیں۔ اس نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اسی ہزار افراد کو جبری طور پر اٹھایا جا چکا ہے یعنی انہیں کسی حد تک لاپتہ یا گمشدہ افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔

 برطانیہ میں قائم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق 2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے شروع ہونے کے بعد سے اب ساتھ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، گزشتہ برس 33 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس تنظیم کے مطابق ان میں دس ہزار افراد عام شہری جب کہ سات ہزار افراد حکومت کے فوجی تھے۔ اس سال میں اب تک چودہ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں قریب پانچ ہزار عام شہری تھے۔

 

 

ب ج/ ع ق (اے ایف پی )