1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سمندری سفرکی تاریخ کو چیلنج کرتا ہزاروں سال پرانا بحری جہاز

21 جون 2024

اسرائیلی ساحل سے نوے کلومیٹر کے فاصلے پر 3,300 سال قدیم جہاز کی موجودگی کو ایک ’زبردست دریافت‘ قرار دیا جارہا ہے۔ اس بحری جہاز پر سینکڑوں کی تعداد میں قدیم صراحی نما برتن یا امفورے درست حالت میں پائے گئے۔

https://p.dw.com/p/4hMME
ایک روبوٹ کے ذریعے 1800 میٹر کی گہرائی سے اس قدیم بحری جہاز پر لدے ہوئے جار نکالے گئے
ایک روبوٹ کے ذریعے 1800 میٹر کی گہرائی سے اس قدیم بحری جہاز پر لدے ہوئے جار نکالے گئےتصویر: Emil Aladjem/IAA/AP Photo/picture alliance

اسرائیل میں آثار قدیمہ کی اتھارٹی (آئی اے اے) نے شمالی اسرائیل کے ساحل سے ایک 3,300 سال پرانے بحری جہاز اور اس پر لدے سامان کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ آئی اے اے نے جمعرات کے روز کہا کہ یہ جہاز قدرتی گیس کی کھدائی کرنے والی ایک کمپنی کو کام کے دوران ملا ۔ یہ قدیم دور میں خشکی سے سے بہت دور جانے والے جہاز وں کی مثالوں میں سے ایک ہے۔ اس بحری جہاز پر سینکڑوں کی تعداد میں قدیم صراحی نما برتن یا  امفورے درست حالت میں پائے گئے۔

اسرائیلی آثار قدیمہ اتھارٹی نے اسے ایک ''زبردست دریافت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس بحری جہاز کا ملبہ لندن میں اندراج شدہ توانائی کی کمپنی انرجیئن  نے بحیرہ روم میں 1,800 میٹر کی گہرائی میں دریافت کیا۔ آئی اے اے کے مطابق اتنی زیادہ  گہرائی میں ہونے کا مطلب ہے کہ یہ بحری جہاز ہزاروں سالوں سے سمندری لہروں یا ماہی گیری کی سرگرمیوں سے متاثر نہیں ہوا اور یہ تحقیق کے لیے زیادہ امکانات پیش کرتا ہے۔

اس بحری جہاز کا ملبہ لندن میں اندراج شدہ توانائی کی کمپنی انرجیئن  نے بحیرہ روم میں دریافت کیا
اس بحری جہاز کا ملبہ لندن میں اندراج شدہ توانائی کی کمپنی انرجیئن  نے بحیرہ روم میں دریافت کیاتصویر: Emil Aladjem/IAA/AP Photo/picture alliance

یہ دریافت کیوں اہم ہے؟

آئی اے اے نے کہا کہ کانسی کے زمانے کے آخری دور کے جہاز کی دریافت سے پتہ چلتا ہےکہ قدیم ملاحوں کی بحری مہارت ہماری اب تک کی سوچ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی کیونکہ وہ گہرے سمندر میں بھی سفر کر سکتے تھے۔ یہ ملبہ گزشتہ سال شمالی اسرائیل کے ساحل سے 90 کلومیٹر  دور پایا گیا تھا۔ آئی اے اے نے کہا کہ یہ قدیم بحری جہاز اور اس پر لدا سامان مکمل طور پر صحیح حالت میں تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ یا تو طوفان یا پھر قزاقوں کے حملے کے بعد ڈوب گیا تھا۔

آئی اے اے میرین یونٹ کے سربراہ جیکب شرویت نے کہا، ''اس کشتی کی دریافت نے اب قدیم سمندری صلاحیتوں کے بارے میں ہماری پوری سمجھ کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہ اتنی بڑی دوری پر پائی جانے والی پہلی کشتی ہے۔‘‘ شرویت کے مطابق محققین نے فرض کیا تھا کہ اس عرصے کے دوران تجارت ساحل کے قریب سے گزرنے والی کشتیوں کے ذریعے کی جاتی تھی، جب وہ ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ کی طرف جاتے تھے تو ساحلی زمین پر نظر رکھتے ہوئے ایسا کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نئی دریافت ہونے والی کشتی کے ملاحوں نے اپنا راستہ تلاش کرنے کے لیے شاید سورج اور ستاروں کا استعمال کیا۔

 اس بحری جہاز پر سینکڑوں کی تعداد میں قدیم صراحی نما برتن یا  امفورے درست حالت میں پائے گئے
اس بحری جہاز پر سینکڑوں کی تعداد میں قدیم صراحی نما برتن یا  امفورے درست حالت میں پائے گئےتصویر: Emil Aladjem/IAA/AP Photo/picture alliance

جہاز کا ملبہ کیسے ملا؟

انرجیئن جیائیل کے علاقائی پانیوں میں گہرے سمندر میں قدرتی گیس کی متعدد فیلڈز پر کام کر رہی ہے۔ اپنے کام کے حصے کے طور پر یہ کمپنی سمندری تہہ کو چھاننے کے لیے پانی کے اندر روبوٹس کا استعمال کرتی ہے۔ اس دوران  تقریباً ایک سال پہلے اس  12 سے 14 میٹر لمبے بحری جہاز کوکیچڑ کی تہہ میں  سینکڑوں برتنوں کے درمیان دبے ہوئے پایا گیا۔

اس کمپنی کے ماحولیات کے شعبے کے سربراہ کارنیت بہارٹن نے کہا، ''جب ہم نے انہیں (نوادرات کی اتھارٹی) کو تصاویر بھیجیں تو یہ ایک سنسنی خیز دریافت ثابت ہوئی، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ ابھی جہاز کو اس کی موجودہ جگہ سے نکالنے کا کام نہیں کیا جا رہا ہے، لیکن انرجئین نے آئی اے اے کے ساتھ مل کر دو قدیم جار نما برتنوں کو باہر نکال لیا ہے، جو ممکنہ طور پر تیل، شراب یا پھل لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ آئی اے اے نے جار کی شناخت قدیم کنعانیوں کی ملکیت کے طور پر کی ہے، جو وہ افراد تھے جومشرقی بحیرہ روم سے متصل زمینوں پر رہا کرتے تھے۔

ش ر⁄ ع ت (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

تباہ ہونے والی آبدوز کے مسافروں کی لاشیں نہیں ملیں گی