1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سماجی ناانصافی کی چوہے دانی کا خوف

16 مئی 2022

ماہرین تاریخ عمرانیات کہتے ہیں کہ انسانوں نے مل کر بستیوں اور دیہات میں رہنا اس لیے شروع کیا تھا کہ انہیں ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ اجتماعی طور پر وہ خود کو ہر طرح کے خطرات سے زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4BLiD
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

ایک بنیادی جذبہ ایک دوسرے سے ہمدردی کا بھی تھا۔ آج لاکھوں برس گزر جانے کے بعد بھی انسانوں کے مل جل کر رہنے کے پیچھے یہی جذبے کارفرما ہیں۔ جدید زندگی کی سماجی سہولتیں شہروں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر دیہات میں بھی میسر ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے اپنے طور پر ترقی کی دوڑ میں شامل ہے۔

 کوئی تیز رفتاری سے آگے رہتے ہوئے تو کوئی سست رفتاری سے پیچھے رہتے ہوئے۔ آج کا انسان ماضی کے مقابلے میں مادی ترقی کے نتائج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ پہلے اگر وہ غاروں اور میدانوں میں رہتا تھا تو پھر ایسی بستیوں میں، جو رات کے وقت تاریکی میں ڈوب جاتی تھیں۔ آج ہم سب اپنے گھروں میں بجلی، پنکھے، ریفریجریٹر اور ٹیلی وژن استعمال کرتے ہیں تو سفر کے لیے کاریں، بسیں، سائیکلیں سب کچھ دستیاب ہے۔ بہت سے شہر ایسے ہیں جو راتوں کو بھی روشنیوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔

ساری مادی ترقی کے باوجود انسانوں میں جو ایک بات آج تک نہیں بدلی، وہ ان کی خود غرضی ہے۔ عام رویہ یہ ہے کہ دو انسان بھوکے ہوں اور ان کے پاس روٹی ایک ہو تو دونوں میں سے ہر ایک چاہے گا کہ وہ پوری روٹی خود کھا لے۔ یہ ایک عام رویہ ہے، جس میں استثناء بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو بھوکے انسان مل کر ایک روٹی آدھی آدھی کھا لیں۔ ماں تو اپنی اولاد کے لیے اکثر یہ بھی کرتی ہے کہ روٹی ایک ہو تو وہ پوری کی پوری اس کا بچہ کھا لے۔ یا ماں صرف ایک دو نوالے کھا لے اور باقی روٹی اپنے بچے کو کھلا دے۔ جس عمومی انسانی رویے کی بات یہاں ہو رہی ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ روٹی ایک ہو اور دونوں بھوکے انسان اجنبی ہوں۔ پھر دیکھیے کہ وہاں مساوات، ہمدردی اور قربانی کا اظہار دیکھنے کو ملتا ہے یا خود غرضی کا۔

ایک مثال کسی بھی ترقی پذیر ملک میں شادی وغیرہ کی کسی تقریب کی بھی ہو سکتی ہے، جس میں نظر آنے والے مناظر ہر دیکھنے والے کے ذہن میں باقی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ان سماجی تقریبات میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے، جہاں کھانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔ کھانے پینے کے سماجی آداب کو نظر انداز کرنا اور صرف اپنا پیٹ بھرنے کا سوچنا انسانوں کے صدیوں سے نہ بدلنے والے معاشرتی رویوں کی صرف ایک مثال ہے۔

ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان مل جل کر دیہات اور شہروں میں تو رہتے ہیں، مہذب بھی ہوتے ہیں، ناانصافی کو ناپسند بھی کرتے ہیں۔ مگر دوسروں سے ناانصافی سے کہیں زیادہ اپنے ساتھ ناانصافی کو قابل مذمت سمجھتے ہیں۔ جہاں موقع ملے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہو، وہاں اکثر قانون پسند شہری بھی قانون شکنی پر اتر آتے ہیں۔

 معاشرے میں اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو، تو ممکن ہے کہ ہم اسے دیکھیں اور کچھ کہے بغیر دوسری طرف دیکھتے ہوئے قریب سے گزر جائیں۔ ایسا ہم اپنے اندر اس خوف کی وجہ سے کرتے ہیں، جس کے تحت ہم دوسروں سے پہلے خود کو اور اپنے مفادات کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں کرپشن، رشوت اور اقربا پروری عام ہے۔ پولیس، جس کا کام قانون کے احترام کو یقینی بنانا ہے، رشوت لیتی ہے۔ پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح چوریاں بھی ہوتی ہیں اور قتل بھی۔ لیکن اگر کوئی عام شہری ایسی ناانصافی یا جرم ہوتا دیکھے تو وہ کچھ سوچ کر چپ ہی رہتا ہے اور اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھتا ہے۔

اصول یہ ہے کہ ظلم ہوتا دیکھ کر اسے نہ روکنا بھی ظلم ہے۔ جیسے ظلم کرنا بھی جرم ہے اور ظلم سہنا بھی۔ پھر اکثر لوگ ظلم اور ناانصافی کے خلاف بولتے کیوں نہیں؟ اس لیے کہ بولنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا قانون آپ کی انصاف پسندی اور قانون پسندی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا یا آپ کی طرف سے سماجی ذمے داری اور انسانی ہمدردی کا اظہار الٹا آپ کے لیے عذاب بن جائے گا۔

پاکستان میں کراچی، لاہور یا پشاور جیسے کسی بھی شہر کی مثال لے لیجیے۔ وہاں سڑک پر اگر کوئی ٹریفک پولیس اہلکار کسی کار ڈرائیور یا موٹر سائیکل سوار سے رشوت لے رہا ہو،تو ہم میں سے اکثر یہ منظر دیکھ کر اسے دل ہی دل میں ناپسند کریں گے، حیران اس لیے نہیں ہوں گے کہ ایسے منظر تو اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ خاموشی سے منہ دوسری طرف کر کے اس لیے گزر جائیں گے کہ ہمیں علم ہوتا ہے کہ مداخلت کرنے پر ہم خود بھی گرفت میں آ جائیں گے۔ مطمئن ہم اس لیے ہوتے ہیں کہ چلو کوئی اور ہی پکڑا گیا، ہم تو نہیں۔

ایسا ہم اس لیے کرتے ہیں کہ مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے ہم خود کو مجبور سمجھ لیتے ہیں اور اپنے ساتھ ممکنہ ناانصافی کی چوہے دانی سے اپنے خوف کے باعث بچ نکلتے ہیں۔ لیکن پھر کسی نہ کسی دن ہم خود بھی اسی چوہے دانی میں بند ہو جاتے ہیں۔

دوسروں کے ساتھ ناانصافی کے خلاف نہ بولنا ہمیں اپنے خلاف ناانصافی سے نہیں بچاتا۔ یہ وہ انسانی رویہ ہے جو صدیوں سے نہیں بدلا، خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں اپنے ارد گرد پھیلی ناانصافی کی وجہ سے لوگ ظلم کے خلاف بول تو سکتے ہیں مگر بولتے نہیں۔ انہیں اپنی سلامتی عزیز ہوتی ہے۔

اس میں لوگوں سے زیادہ قصور ان معاشروں کا ہے، جہاں قانون تو ہوتے ہیں مگر قانون کی بالا دستی نہیں۔ ترقی پذیر دنیا اور ترقی یافتہ دنیا کے درمیان یہ بھی ایک بڑا فرق ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔