1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلیمان تاثیر کا قتل اور فیس بک

6 جنوری 2011

ناموس رسالت کے قانون میں مجوزہ تبدیلی کے خلاف سینکڑوں فیس بک صارفین نے لبرل پاکستانی سیاستدان سلمان تاثیر کے قتل کی زور دار انداز میں پذیرائی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/zu5Y
سلمان تاثیر کا قتل اور افسردہ لوگتصویر: DW

تقریباﹰ دو ہزار سے زائد فیس بک صارفین سلمان تاثر کے قاتل ممتاز قادری کی تعریف میں قائم کئے گئے ایک گروپ میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ درجنوں مزید افراد نے اس پیج کو جوائن کر لیا ہے، جو قادری کی فائرنگ کے فوری بعد ان کی تعریف میں بنایا گیا تھا۔ تاہم بدھ کے روز ممتاز قادری کے حوالے سے فیس بک پر بنائے گئے تمام صفحات ختم کر دیے گئے ہیں۔

Salman Taseer
مقتول گورنر اپنی اہلیہ کے ہمراہتصویر: Picture-Alliance/dpa

ابھی تک اس حوالے سے فیس بک انتظامیہ کا کوئی بھی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ کئی فیس بک صارفین نے اپنے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور لکھا ہے:’’ہم ممتاز قادری کو سلام پیش کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے تاثیر زندہ نہیں رہا۔‘‘جبکہ حملہ آور قادری کو ’اسلام کا سپاہی‘ لکھا گیا ہے۔

پاکستان کے سب سے زیادہ چھپنے والے اخبار روزنامہ جنگ کے پہلے پیج پر چھپنے والی ایک سٹوری کی شہ سرخی کچھ یوں تھی:’’سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھی جائے نہ ہلاکت پر افسوس کیا جائے۔‘‘اسی سٹوری کے سب ٹائٹل میں لکھا تھا:’’گستاخ رسول کا حمایتی بھی گستاخ ہے۔ پانچ سو علماء، مفتیان کا بیان، ممتاز قادری کو خراج عقیدت۔‘‘

تاہم فیس بک پر ممتاز قادری کے فعل کی مخالفت میں بھی ایک پیج بنایا گیا ہے۔ اس پیج کا نام ’میں ملک ممتاز حسین قادری سے نفرت کرتا ہوں‘ رکھا گیا ہے۔ اس پیج سے مراد سلمان تاثیر کے قاتل سے نفرت نہیں بلکہ اس فعل کے حوالے سے قاتل سے بھی نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس پیج کو ابھی تک صرف 70 افراد نے جوائن کیا ہے۔

قادری کے مخالف فیس بک پیج پر کسی قسم کی بحث یا تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ فیس بک پر سلمان تاثیر کے حامی افراد نے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ایک فیس بک صارف نے کچھ یوں لکھا تھا:’’میں پاکستان میں رواداری کی موت پر افسردہ ہوں۔ گورنر پنجاب اپنے ہی ایک ’پاگل محافظ‘ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔‘‘

گورنر کے قتل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئےایک دوسے شخص نے اپنے پروفائل میں لکھا ہوا تھا:’’یہ دکھ کی بات ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ میرے بچے کس معاشرے میں اپنی زندگی گزاریں گے۔‘‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رواداری کا خاتمہ اور اختلاف رائے بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انٹرنیٹ کو کس طرح ایک دوسرے کے حق اور مخالفت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں