سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ کب اور کیوں آیا؟
13 اگست 2022یہ 14 فروری 1989ء منگل کا دن تھا جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نےبھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کو ان کی کتاب 'سٹینک ورسز‘ لکھنے پر انہیں قتل کر دینے کا فتویٰ دیا تھا۔ خمینی کا استدلال تھا کہ رشدی نے اپنے اس ناول میں مذہب اسلام کی توہین کی تھی۔
مصنف اور ناشرین کو قتل کرنے کی ترغیب
اپنے فتوے میں آیت اللہ خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس کتاب کے مصنف اور ناشرین کو جلد از جلد قتل کر دیں تاکہ ''پھر کوئی بھی اسلام کی مقدس اقدار کو ٹھیس پہنچانے کی جرآت نہ کرے۔‘‘
آیت اللہ خمینی اس وقت 89 برس کے تھے اور اس فتوے کے بعد وہ محض چار مہینے ہی زندہ رہے۔
اپنے فتوے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص سلمان رشدی کی موت کی سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے خود بھی مارا جاتا ہے تو وہ 'شہید‘ ہو گا اور جنت میں جائے گا۔
سلمان رشدی کی جان لینے والے کے لیے 2.8 ملین ڈالر کی رقم انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔
برطانوی پولیس کی حفاظت اور رشدی کی مشکلات
آیت اللہ خمینی کی طرف سے سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ دیے جانے کے بعد برطانوی حکومت نے سلمان رشدی کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کو سونپ دی۔ وہ قریب 13 برس تک وہ جوزف انٹون کے فرضی نام سے مخلتف 'سیف ہاؤسز‘ یا محفوظ مقامات پر منتقل ہوتے رہے۔ پہلے چھ ماہ کے دوران تو 56 مرتبہ ان کے ٹھکانے بدلے گئے۔
رشدی کی مشکلات اس وقت اور بھی بڑھ گئیں جب ان کی امریکی ناول نگار اہلیہ ماریانے وِگنز سے ان کی علیحدگی ہو گئی۔ 'سٹینیک ورسز‘ انہی کو منسوب کی گئی تھی۔
رشدی نے 2012ء میں اپنی سرگزشتمیں اپنی ڈائری میں درج یاد کا ذکر کیا، ''میں بندھا ہوا ہوں اور جیل میں ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا تھا، ''میں بول بھی نہیں سکتا۔ میں ایک پارک میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹبال کو کِک کرنا چاہتا ہوں۔ عام معمول کی زندگی: میرا ناممکن خواب۔‘‘
رشدی کی کتاب پر رد عمل
سلمان رشدی کی کتاب 'سٹینک ورسز‘ پبلشر وائکنگ پینگوئن کی طرف سے ستمبر 1988ء میں شائع کی گئی۔
اکتوبر 1988ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب کی بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کر دی، اس امید پر کہ شاید وہ آئندہ انتخابات میں بھارتی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ بھی دنیا کے قریب 20 دیگر ممالک نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی۔
جنوری 1989ء میں برطانیہ کے شمالی شہر بریڈفورڈ میں مسلمانوں نے کھلے عام اس کتاب کی کاپیاں نذر آتش کیں۔
اس کے قریب ایک ماہ بعد ہزاروں پاکستانیوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی 'انفارمیشن سینٹر‘ پر حملہ کیا۔ مظاہرین سلمان رشدی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ مظاہرین مارے گئے۔
خمینی کے فتوے نے مغربی دنیا میں خوف وہراس پیدا کر دیا۔ یورپ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور لندن اور تہران کے سفارتی تعلقات قریب 20 برس تک منقطع رہے۔
رشدی نے 1990ء میں اپنے ایک مضمون 'اِن گُد فیتھ‘ میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش مگر یہ چیز بہت سے مسلمانوں کے لیے تسلی کا باعث نہ بن سکی۔
رشدی سے متعلق افراد پر حملے
رشدی نے 1991ء میں بتدریج عوامی زندگی کی طرف واپس آنے کی کوشش شروع کر دی، لیکن ان کے جاپانی مترجم کو اسی برس کے آخر میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے اطالوی مترجم بھی کچھ دنوں کے بعد چاقو حملے کا نشانہ بنے جبکہ ناورے کے پبلشر دو برس بعد گولی کا نشانہ بنے۔ حالانکہ یہ بات کبھی واضح نہیں ہوئی کہ آیا یہ حملے خمینی کے فتوے کی وجہ سے ہوئے تھا یا نہیں۔
1993ء میں مسلمان مظاہرین نے وسطی ترک شہر سیواس کے ایک ہوٹل کو نذر آتش کر دیا کیونکہ وہاں عزیز نسیم موجود تھے جو سلمان رشدی کے اس ناول کا ترکی میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ عزیز نسیم تو وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر 37 دیگر افراد مارے گئے۔
1998ء میں تاہم ایران کے اصلاحات پسند صدر محمد خاتمی نے برطانیہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ایران اب اس فتوے پر عمل نہیں کرے گا۔ تاہم خمینی کے پس رو آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2005ء میں کہا کہ وہ اب بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ سلمان رشدی نے ایک 'مرتد‘ ہیں اور اسلام کے رو سے ان کا قتل جائز ہے۔
ا ب ا/ش ح (اے ایف پی، روئٹرز)