1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

سعودی یمن سرحد پر حوثی باغیوں کے حملے میں دو فوجی ہلاک

26 ستمبر 2023

حوثی باغیوں نے ابھی تک اس ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ سعودی عرب کی قیادت والے اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب دینے کے اپنے حق کو محفوظ رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4WnzC
حوثی باغی
ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سن 2015 سے ہی سعودی عرب کے زیرقیادت فوجی اتحاد کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اس تنازعے میں اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے یمن کی 80 فیصد آبادی اب انسانی امداد پر منحصر ہےتصویر: AP Photo/picture alliance

بحرین کی فوجی کمان نے یمن کے حوثی جنگجوؤں پر سعودی عرب اور یمن کے ساتھ جنوبی سرحد پر ڈرون حملے میں دو بحرینی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

یمن میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرت میں پیش رفت

بحرین کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس حملے میں بحرین کے متعدد فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس بیان کو بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی نے پیر کے روز نشر کیا، تاہم زخمی ہونے والے فوجیوں کی صحیح تعداد جاری نہیں کی گئی۔

یمن کے لیے بھاری سعودی اقتصادی امداد

بحرینی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے: ''یہ دہشت گردانہ حملہ حوثیوں نے کیا ہے، جنہوں نے یمن میں متحارب فریقوں کے درمیان فوجی کارروائیوں کو روکنے کے باوجود، سعودی عرب کے ساتھ یمن کی جنوبی سرحد پر بحرین کے گارڈز کی پوزیشن کو نشانہ بنانے کے لیے طیارے بھیجے۔'' 

یمن میں قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کے لیے اردن میں مکالمت جاری

جزیرہ نما ملک بحرین سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے اور وہ بھی یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کے ساتھ کئی برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔

سعودی اور حوثی باغیوں کے درمیان امن مذاکرات

حوثی باغیوں نے فوری طور پر اس حملے کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی ان کی جانب سے چلائے جانے والے میڈیا اور سوشل میڈیا آپریشنز پر حملے کا کوئی ذکر کیا گیا ہے۔

سعودی عرب اور حوثیوں میں مذاکرات سے یمن میں امن کی نئی امید

واضح رہے کہ اس جنگجو گروپ کے مذاکرات کاروں نے حال ہی میں یمن میں تنازع کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے سعودی عرب کے حکام کے ساتھ بات چیت بھی کی تھی تاکہ مستقل جنگ بندی کے کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچا جا سکے۔

خوثی باغی رہنما یمن میں سعودی عرب کے سفیر کے ساتھ
حوثی جنگجو گروپ کے مذاکرات کاروں نے حال ہی میں یمن میں تنازع کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے سعودی عرب کے حکام کے ساتھ بات چیت بھی کی تھی تاکہ مستقل جنگ بندی کے کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچا جا سکے۔تصویر: SABA NEWS AGENCY/REUTERS

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اس ڈرون حملے میں بحرینی فوجیوں کی ہلاکت سے یہ امن مذاکرات پٹری سے اتر جائیں گے یا پھر بات چیت جاری رہے گی۔

سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد نے حوثی جنگجوؤں کو خبردار کیا ہے کہ ''اس طرح کے بار بار معاندانہ اور اشتعال انگیز اقدامات بحران کے خاتمے اور ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی مثبت کوششوں کے عین برعکس ہیں۔''

اتحاد نے کہا ہے کہ وہ اس کا ''مناسب وقت اور جگہ پر جواب دینے کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے۔''

بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت نے پیر کے روز ڈرون حملے کی مذمت کی تھی۔ وزیر خارجہ احمد بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بحرین کے چیف ڈپلومیٹ عبداللطیف الزیانی سے فون پر بات کی اور بحرین کے ساتھ تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔

مبصرین کے مطابق یہ حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ بات چیت کے باوجود فرنٹ لائن پر معمول کی کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سن 2015 سے ہی سعودی عرب کے زیرقیادت فوجی اتحاد کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اس تنازعے میں اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے یمن کی 80 فیصد آبادی اب انسانی امداد پر منحصر ہے۔

یمن کی جنگ سن 2014 میں شروع ہوئی تھی، جب حوثی باغیوں نے اپنے شمالی گڑھ سے نیچے اتر کر دارالحکومت صنعا اور ملک کے شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے جواب میں، سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے سن 2015 میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار میں بحال کرنے کی کوشش کی۔

پھر یہ لڑائی جلد ہی سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعطل کی وجہ سے پراکسی جنگ میں بدل گئی، جس سے یمن میں بڑے پیمانے پر بھوک اور بدحالی پھیلتی گئی۔ اس تنازع سے پہلے بھی یمن عرب دنیا کا غریب ترین ملک تھا۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے