1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سعودی ڈکٹیشن‘ لینے والے ملک کا مشرق وسطیٰ تنازعے میں کردار

عبدالستار، اسلام آباد
9 جنوری 2020

پاکستان نے مشرق وسطی میں کشیدگی کو کم کرانے کے لیے سرگرم سفارتی مہم شروع کردی ہے لیکن سفارتی اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کے خیال میں یہ مہم کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔

https://p.dw.com/p/3Vwwa
Iran Trauerzeremonie für getöteten General Soleimani in Teheran
تصویر: AFP/A. Kenare

واضح رہے کہ اسلام آباد نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ وہ کسی بھی تنازعے یا جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے دے گا بلکہ یہ کہ وہ امن کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔ کل بروز بدھ وزیر اعظم عمران خان نے بھی حکومت کے اس موقف کو دہرایا اور اعلان کیا کہ شاہ محمود قریشی ایران، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ کر کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے جب کہ جنرل باجوہ کو متعلقہ ممالک کے فوجی حکام سے رابطہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان مشرق وسطی کے مسئلے پر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ نہ ملک معاشی طور پر طاقت ور ہے اور نہ ہی کوئی عالمی طاقت ہے۔ 

خیال کیا جاتا ہے کہ ایران میں عوامی جذبات بہت زیادہ مشتعل ہیں اور ایرانی انتقام کے جذبے سے بھرے بیٹھے ہیں، ایسے میں وہ صلح صفائی کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میرے خیال میں جتنا بڑا ہجوم سلیمانی کے جنازے میں شرکت کے لیے آیا، اس سے لگتا ہے کہ فی الحال تو ایسی کوئی پاکستانی مہم کامیاب نہیں ہوگی، پاکستان صرف کوشش ہی کر سکتا ہے لیکن ان کوششوں کی کامیابی کے امکانات زیادہ نہیں ہیں۔"

Kronprinz von Saudi-Arabien Mohammad bin Salman
پاکستان پر سعودی عرب کا غیر معمولی دباؤ ہےتصویر: picture-alliance/dpa/AP/S. Walsh

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور ایران براہ راست بات چیت نہیں کر سکتے جب کہ واشنگٹن اور تہران کی بھی براہ راست بات چیت نہیں ہے، تو ایسے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ اسلام آباد کی بات چیت تمام ممالک سے ہے۔ لیکن فوزیہ نسرین اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ "میرا نہیں خیال کہ معاملہ ایسا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم ایران اور سعودی عرب میں بات چیت کرارہے تھے۔ سلیمانی اورمہندس بھی اس بات چیت کا حصہ تھے اور کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس بات چیت میں پیش رفت ہورہی تھی اور سلیمانی کو ہدف ہی اسی لیے بنایا گیا ہے کہ وہ بات چیت ناکام ہو۔ اسی طرح امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت کا زریعہ جاپان تھا۔ تو میرا نہیں خیال کہ پاکستان کی پوزیشن ایک پیغام رساں جیسی ہے۔"

پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ اسلام آباد مسلم امہ کا ایک بہت بڑا لیڈر ہے اور اس کی وجہ سے کئی ممالک اسلام آباد کی بات کو سنتے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ممالک اپنی پالسیاں قومی مفادات کے تحت بناتے ہیں، جس میں مذہب کوئی بہت بڑا عنصر نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ کے مطابق ہم پر سعودی اثر ورسوخ اتنا ہے کہ ہم ان سے کوئی بات نہیں منوا نہیں سکتے۔ "صلح کاری کے لیے کسی ملک کی مضبوط پوزیشن ہونا ضروری ہے لیکن یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ناقدین تو اب کہہ رہے ہیں کہ پہلے پاکستان امریکا سے ڈکٹیشن لیتا تھا اور اب ریاض یہ ڈکٹیشن دیتا ہے۔ تو ایسی صورت میں سعودی ہماری بات کیوں سنیں گے۔"

Pakistan Islamabad | Proteste gegen die USA nach Dronenangriff auf Kassem Soleimani
جنرل سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد پاکستان میں شیعہ برادری کا شدید احتجاجتصویر: picture-alliance/dpa/AP/B. K. Bangash

ان کا کہنا تھا کہ صلح کے لیے فریقین کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔ "لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایران پاکستان کی وجہ سے اپنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹے گا۔ پہلے بھی ایسی کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور اب بھی اس سفارتی سرگرم مہم کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔"

اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ مہم شروع ہوئی ہے، اس کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

عبدالستار/ اسلام آباد

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید