1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب یمن جنگ سے فاتح بن کر نہیں نکلے گا، ایران

امتیاز احمد9 اپریل 2015

ایران کے روحانی پیشوا نے اپنے علاقائی حریف سعودی عرب کی یمن میں مداخلت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر ’نسل کُشی‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب شدید بمباری کے باوجود عدن میں حوثی باغیوں کی پیش قدمی جاری ہے.

https://p.dw.com/p/1F5al
تصویر: picture-alliance/dpa/Offical Supreme Leader Website

روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کا یہ بیان ایران کی طرف سے اب تک کا سخت ترین بیان ہے۔ اس سے پہلے تک ایران یمن میں مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیتا آیا ہے لیکن ٹیلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے علی خامنہ ای کا کہنا تھا، ’’سعودی عرب کی طرف سے یمن اور اس کے معصوم لوگوں کے خلاف جارحیت ایک غلطی تھی۔ اس طرح خطے میں ایک بری مثال قائم کی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ ایک جرم اور نسل کُشی ہے، اس کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ ریاض حکومت اپنی اس جارحیت میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔‘‘

ایرانی رہنما نے سعودی عرب کے علاوہ اس کے اتحادی ملکوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ غلطیوں کو دہرا رہے ہیں۔ ایران کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب گزشتہ روز ہی ایران نے اپنے دو جنگی بحری جہاز خلیج عدن کی طرف روانہ کیے تھے۔ دوسری جانب سعودی عرب بھی اپنے ان الزامات کو دہرا رہا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد اور تربیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتا ہے۔ قبل ازیں امریکا نے بھی کہا تھا کہ وہ ایران کی طرف سے حوثی باغیوں کی فراہم کی جانے والی مدد سے آگاہ ہے۔

حوثی باغیوں کی پیش قدمی جاری

دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل بمباری بھی حوثی باغیوں اور ان کی حمایت یافتہ جنگجوؤں کی پیش قدمی نہیں روک پائی ہے۔ حوثی باغیوں کے حمایت یافتہ اور یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجی عدن شہر کے مرکز کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ بمباری اس وقت تک جاری رکھے گا، جب تک حوثی باغیوں کی پیش قدمی رک نہیں جاتی اور یمن کے صدر عبد ربو منصور ہادی دوبارہ بحال نہیں ہو جاتے۔ عبد ربو منصور ہادی دو ہفتے پہلے عدن سے فرار ہو گئے تھے۔ سعودی عرب امید کر رہا ہے کہ ان اقدامات کے بعد اقوام متحدہ کی ثالثی میں مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔

دریں اثناء ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجی اور حوثی باغی یمن کے مشرق میں واقع سُنی صوبے شبوہ کے دارالحکومت میں داخل ہو گئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اس پیش رفت میں مقامی قبائلی سرداروں نے حوثی باغیوں کو عتق نامی علاقے تک پہنچنے میں مدد فراہم کی ہے، جس کے بعد باغیوں نے مقامی حکومتی عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شیعوں کی زیدی شاخ سے تعلق رکھنے والے حوثی باغی العولقی نامی سُنیوں کے اس آبائی علاقے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

دوسری جانب یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ وسطی یمن میں القاعدہ نے الصدہ نامی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس علاقے پر گزشتہ دو ماہ سے حوثی باغیوں کا قبضہ تھا تاہم تازہ پیش رفت میں حوثی باغی بغیر کسی مزاحمت کے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔