1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کی طرف سے لبنان کے ليے تين بلين ڈالر کی عسکری امداد

عاصم سليم30 دسمبر 2013

لبنان کے صدر مشعل سليمان کے مطابق سعودی عرب بيروت حکومت کو تين بلين ڈالر کی مالی امداد دے گا۔ اس امداد کا مقصد لبنان کی فوج کو مضبوط کرنا ہے اور اس رقم سے يورپی ملک فرانس سے اسلحہ خريدا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1AiLT
تصویر: Reuters

لبنان کے صدر مشعل سليمان نے اتوار انتيس دسمبر کے روز اعلان کيا ہے کہ رياض حکومت کی جانب سے دی جانے والی يہ امداد لبنان کی تاريخ ميں اس کی فوج کے لیے دی جانے والی سب سے بڑی امداد ہے۔ سليمان نے يہ اعلان ملکی ٹيلی وژن پر نشر کردہ اپنی ايک غير اعلانيہ تقرير کے دوران کيا۔ سعودی امداد سے جو اسلحہ خریدا جائے گا، اُس بارے ميں انہوں نے مزيد کوئی تفصيلات نہيں بتائيں۔

مشعل سليمان نے اپنی تقرير ميں کہا، ’’سعودی بادشاہ نے واضح کيا ہے کہ بيروت اور پيرس حکومتوں کے مابين تاريخی تعلقات اور عسکری تعاون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہتھيار فرانس سے اور فوری طور پر خريدے جائيں گے۔‘‘ اس موقع پر سليمان نے يہ اميد ظاہر کی کہ فرانس اس سلسلے ميں فوری کارروائی کرتے ہوئے لبنان کی افواج کو اسلحہ اور تربيت فراہم کر ے گا۔

اولانڈ نے رياض کے دورے ميں شام اور مشرق وسطی کی صورتحال پر بات کی
اولانڈ نے رياض کے دورے ميں شام اور مشرق وسطی کی صورتحال پر بات کیتصویر: REUTERS

فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کے ليے اتوار کے روز دارالحکومت رياض ميں موجود تھے اور انہوں نے اس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر فرانس سے اس سلسلے ميں کوئی درخواست کی گئی، تو وہ مدد کرنے کے ليے تيار ہے۔ انہوں نے يہ بات رپورٹروں سے بات چيت کرتے ہوئے کہی۔

شام ميں جاری خانہ جنگی کے اثرات خطے کے کئی دوسرے ممالک کو بھی متاثر کر رہے ہيں اور لبنان وہ ملک ہے، جو اپنے پڑوس ميں جاری خونريزی و جنگ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اسی دوران لبنان ميں بم دھماکوں اور پر تشدد واقعات کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس سبب ايسے خدشات جنم لے رہے ہيں کہ يہ ملک کہيں دوبارہ اس پندرہ سالہ خانہ جنگی کے طرف تو نہيں جا رہا، جو سن 1990 ميں اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ انہی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اتوار کی تقرير ميں صدر سليمان نے کہا، ’’لبنان کو فرقہ وارانہ فسادات اور انتہا پسندی کے خطرات لاحق ہيں۔‘‘ صدر کے بقول ملکی فوج کو مضبوط بنانا موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔

لبنان کی آرمی کو روايتی طور پر ملک کے استحکام کے ليے ايک قوت کے طور پر ديکھا جاتا ہے تاہم مارچ سن 2011 سے شام ميں جاری حکومت مخالف تحريک کے سبب حاليہ دنوں ميں فوج کو ملک ميں جاری پر تشدد واقعات پر قابو پانے ميں دشوارياں پيش آ رہی ہيں۔

يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لبنان کی فوج کو ملک کی شيعہ جنگجو تنظيم حزب اللہ کے مقابلے ميں کمزور مانا جاتا ہے۔ حزب اللہ کو سعودی عرب کے رياستی حريف ايران کی حمايت حاصل ہے۔ نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کے مطابق ايسا معلوم ہوتا ہے کہ سعودی امداد حزب اللہ کی پوزيشن کو مد نظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ تاريخی طور پر لبنانی افواج کو امريکا اور فرانس کی جانب سے امداد اور اسلحہ فراہم کيا جاتا رہا ہے۔ واشنگٹن حکومت کئی ملين ڈالر بطور امداد سميت اسلحہ اور لبنانی فوجيوں کو تربيت بھی فراہم کرتی آئی ہے۔ امريکا کا موقف ہے کہ اس تعاون و مدد سے لبنان کی حکومت مضبوط ہوتی ہے۔