1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت، جرمن حکومت منقسم

28 مارچ 2019

جرمن حکومت اس بات کا فیصلہ کرنے سے اب تک قاصر ہے کہ آیا سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی جاری رکھی جائے۔ اسلحے کی فروخت پر عائد اس پابندی کی مدت رواں ہفتے ختم ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Fo9k
Afghanistan - Deutsche Bundeswehr im Einsatz
تصویر: Imago/Est/Ost

چانسلر انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاملے پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ عبوری پابندی کا فیصلہ گزشتہ برس نومبر میں کیا گیا تھا۔ دوسری جانب فرانسیسی حکومت برلن پر دباؤ بڑھائے ہوئے ہے کہ وہ اس پابندی کو ختم کر کے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کا سلسلہ بحال کرے۔

بدھ ستائیس مارچ کو چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں جرمنی کی نیشنل سکیورٹی کونسل (اس کونسل میں چانسلر اور سینیئر وزراء شامل ہوتے ہیں) کا ایک اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ہی ختم ہو گیا تھا۔ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اس پابندی میں توسیع چاہتی ہے۔ میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے خارجہ امور کے ترجمان رولف میُوٹسےنِش نے واضح کیا کہ ایس پی ڈی مخلوط حکومت کے معاہدے پر انحصار کرتی ہے اور اس کے مطابق سعودی عرب کو ہتھیار فروخت نہیں کیے جانا چاہییں کیونکہ ان ہتھیاروں کے یمن کی جنگ میں استعمال کیے جانے کا امکان بھی ہے۔

Waffenlieferung Irak Bundeswehr Präsentation in Waren
سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی گزشتہ برس نومبر میں عائد کی گئی تھیتصویر: REUTERS/Thomas Peter

ہر ہفتے بدھ کے دن کی جانے والی معمول کی حکومتی پریس کانفرنس میں بھی جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے بھی چانسلر میرکل کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ کے بارےمیں کوئی بات نہ کی۔ کابینہ کے اجلاس میں فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں ایو لدریاں بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں مزید قربت کے نئے پروگرام کے تناظر میں شریک تھے۔

پریس کانفرنس میں چانسلر میرکل کی کابینہ کا اجلاس کے اہم موضوع یعنی سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر کئی سوالات پوچھے گئے لیکن ترجمان نے ایک ہی جواب دیا کہ جب اس مناسبت سے کوئی فیصلہ ہو گا تو اس کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ زائبرٹ نے یہ بہرحال واضح کیا کہ اس مناسبت سے برلن کے حکومتی حلقوں میں شدید بحث جاری ہے اور پیرس حکومت کے ساتھ مشاورت بھی کی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں