1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

سعودی عرب مشکل میں: پاکستان میں کئی حلقوں کی طرف سے حمایت

1 مارچ 2021

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی عرب پر امریکی دباو بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں کئی حلقوں نے اس معاملے پر سعودی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3q414
Kombobild Jamal Khashoggi und Mohammed bin Salman

امریکی خفیہ ادارے کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار سینیئر سعودی عہدیداروں کو ٹھہرایا ہے۔ اس رپورٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سن 2017 سے سعودی سلامتی اور سراغ رسانی کے ادارے پرنس محمدبن سلمان کے کنٹرول میں ہیں اور یہ انتہائی غیر متوقع بات ہے کہ سعودی افسران ایسا کوئی آپریشن ان کی منظوری کے بغیر کریں۔ قومی سراغ رسانی کے امریکی ادارے کے خیال میں اس آپریشن کی منظوری محمد بن سلمان نے دی تھی۔

سعودی عرب نے خاشقجی کے قتل پر امریکی رپورٹ مسترد کر دی

علما کی طرف سے حمایت

 ہفتے کو پاکستانی دفتر خارجہ نے سعودی عرب کے حق میں بیان دیا جب کہ کل بروز اتوار ملک کے ایک ہزارعلما و مشائخ نے لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس میں قرار داد کے ذریعے سعودی عرب کی حمایت کی۔

Türkei I Konsulat Saudi Arabien in Istanbul
استنبول میں سعودی قونصل خانے کی عمارت، جہاں خاشقجی کا قتل ہوا تھاتصویر: Yasin Akgul/AFP/Getty Images

اس قرارداد کی تفصیل بتاتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے مشرق وسطی و بین المذاہب ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کل لاہور میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں ایک ہزار علما، جن کا تعلق مختلف مکتبہ فکر سے تھا، نے پاکستان کی وزرات خارجہ اور سعودی وزرات خارجہ کے اس موقف کی تائید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے انصاف کے سارے تقاضے اس مقدمے کے حوالے سے پورے کئے ہیں۔‘‘

مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی ولی عہد کے خلاف مقدمہ دائر کردیا

مشکل میں ساتھ دینا ہی دوستی ہے

سعودی عرب سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی کام کرتے ہیں اور ملک کو بہت اہم زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض نے مختلف مواقع پر پاکستان کی مالی مدد بھی کی ہے جب کہ ادھار تیل بھی فراہم کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفارت کار شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہے۔ ''پاکستان نے سعودی حمایت کا اعلان کر کے اور اس سے اظہاریکجہتی کر کے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اب اگر وہ مشکل میں ہے تو ہمیں بالکل اظہار یکجہتی کرنی چاہیے۔‘‘

Saudi-Arabien | Kronprinz Mohammed bin Salman
سن 2017 سے سعودی سلامتی اور سراغ رسانی کے ادارے پرنس محمدبن سلمان کے کنٹرول میں ہیںتصویر: Xinhua/imago images

دباؤ لینے کی ضرورت نہیں

شمشاد احمد خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ''اگر کوئی آج یہ کہتا ہے کہ ہم سعودی عرب کی حمایت نہ کریں یا اس سے دوستی نہ نبھائے، تو کل یہ ہی بات چین کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ہم نے کبھی امریکہ یا کسی اور ملک سے نہیں پوچھا کہ اس نے ریاستی دہشت گردی کے مرتکب بھارت سے کیوں دوستی کی ہے اور کیوں اسے ایف اے ٹی ایف کا رکن بنایا ہے۔ تو ہمیں کسی ڈر سے بالاتر ہو کر سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے۔‘‘

جمال خاشقجی کیس: ترکی نے مزید چھ سعودی شہریوں پرفرد جرم عائد کردی

تنقیدی سلسلہ

تاہم کچھ حلقے دفتر خارجہ کی طرف سے اس حمایت کو ہدف تنقید بھی بنارہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ریاض کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی یہ حمایت کوئی غیر متوقع نہیں تھی۔ ''کیونکہ ریاض کے ساتھ ہمارے معاشی مفادات ہیں۔ لوگوں کا مذہبی لگاواس کے علاوہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر مہدی حسن نی یہ بھی کہا کہ  عمران خان کی حکومت بھی مذہبی ہے، جو مذہبی عناصراور رجعت پسندوں کو خوش رکھنا چاہتی ہے۔‘‘