1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: رواں برس سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دی گئی

19 جولائی 2024

سعودی عرب میں رواں برس کے دوران اب تک ایک سو چھ افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے، جس میں سات پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ گزشتہ برس مملکت میں کم از کم 170 افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4iUeP
سر قلم کرنے کی علامتی تصویر
مملکت سعودی عرب سزائے موت کے لیے سر قلم کرنے کے لیے بھی بدنام ہے، جس نے مارچ 2022 میں ایک ہی دن میں 81 افراد کے سر قلم کیے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Abdullah

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں جن دو افراد کو موت کی سزا سنائی گئی تھی، جمعرات کے روز اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کی گردن مار دی گئی۔

سعودی عرب میں پانچ پاکستانیوں کو سزائے موت دے دی گئی

سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے موت کی تازہ سزا سے متعلق وزارت داخلہ کے اعلان کی اطلاع دی۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک سعودی شہری کو ایمفیٹامائنز کی اسمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دی گئی جبکہ دوسرا پاکستانی شہری تھا، جسے ہیروئن کی اسمگلنگ کے جرم میں موت کی سزا دی گئی۔ دونوں ہی واقعات کا تعلق مکہ سے تھا۔

سعودی عرب میں پانچ افراد کی سزائے موت پر ایک ساتھ عمل درآمد

رواں برس سو سے زائد افراد کو موت کی سزا

سعودی حکام نے تقریباً تین سال کے وقفے کے بعد سن 2022 کے اواخر میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے پھانسی کا عمل دوبارہ شروع کیا تھا۔

سعودی عرب کے صحرا میں سرسبز جدید شہر نیوم منصوبے کے تاریک پہلو

خبر رساں ادارے اے ایف نے سعودی عرب میں سزائے موت سے متعلق جو اعداد و شمار جمع کیے ہیں، اس کے مطابق رواں برس مملکت سعودی عرب میں اب تک کم از کم 106 افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔

موت کی سزاؤں پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل

مملکت نے اس تعلق سے جو اعداد و شمار جاری کیے، اس کی بنیاد پر اے ایف پی نے کہا کہ اس سال ریکارڈ کی گئی 106 سزائے موت میں سے سات کا تعلق منشیات سے متعلق جرائم سے تھا۔

سعودی عرب، ایک ہی دن میں 81 افراد کو پھانسی دے دی گئی

سن 2023 میں سعودی عرب نے کم از کم 170 افراد کو موت کی سزا دی تھی، جن میں سے 33 ملزمان کا تعلق دہشت گردی جیسے جرائم سے تھا۔

سعودی عرب:  مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن اور سختیاں جاری

گزشتہ برس خلیجی ریاست نے جولائی کے مہینے تک کم از کم 74 افراد کو سزائے موت دی تھی۔

سعودی عرب پر تنقید

 برلن میں قائم یورپی-سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق نے پیر کے روز سعودی عرب کی اس بات کی مذمت کی تھی کہ اس نے ''تقریباً ہر دو دن میں ایک موت کی سزا دی''۔

ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ ''196 دنوں میں ایک سو افراد کو موت کی سزا دینا اس بات کا مظہر ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سعودی حکومت سزائے موت کے وسیع تر استعمال پر مصر ہے۔''

کیا موت کی سزا کو ختم کر دیا جانا چاہیے؟

 انسانی حقوق کی تنظیم اور اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس سزائے موت پانے والوں میں 78 سعودی ہیں۔ باقی آٹھ یمنی، پانچ ایتھوپیائی، سات پاکستانی، تین شامی، جبکہ سری لنکا، نائیجیریا، اردن، بھارت اور سوڈان کا ایک ایک شہری شامل ہے۔ موت کی سزا پانے والوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب: چھبیس سالہ نوجوان کو سزائے موت دے دی گئی

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سزائے موت سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے سن 2023 میں چین اور ایران کے بعد کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افراد کو موت کی سزائیں دی تھی۔

سعودی عرب میں کئی افراد کو موت کی سزا دینے کی تیاریاں

مملکت سعودی عرب سزائے موت کے لیے سر قلم کرنے کے لیے بھی بدنام ہے۔ اس نے مارچ 2022 میں ایک ہی دن میں 81 افراد کے سر قلم کیے تھے، جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

جمال خاشقجی قتل: سعودی عرب ميں پانچ افراد کو سزائے موت

سعودی حکام موت کی سزا کو شرعی احکام سے ہم آہنگ کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ''امن عامہ کو برقرار رکھنے'' کے لیے یہ ضروری ہے۔

ملک کے عملاً حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ملک کی شبیہہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مملکت میں سزائے موت کو مسلسل، جس طرح قبول کیا جارہا ہے، وہ ایک زیادہ کھلے اور روادار معاشرے کی شبیہ کو مجروح کرتا ہے، حالانکہ شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے میں اسے مرکزی حیثیت بھی حاصل ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، نیوز ایجنسیاں)

موت کی سزا پانے والے قیدی جیل میں کن مراحل سے گزرتے ہیں