1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب اور ایران مذاکرات شروع کریں، جرمنی کا اصرار

کشور مصطفیٰ 4 جنوری 2016

جرمنی نے ریاض اور تہران پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سفارتی تعلقات بحال کریں۔ ساتھ ہی برلن نے متنبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی برآمدات کے بارے میں فیصلہ حالیہ تنازعے کی صورتحال کی روشنی میں کرے گا۔

https://p.dw.com/p/1HXqk
Syrien-Konferenz in Wien Steinmeier
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کو حالیہ تنازعے کے حل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیےتصویر: Reuters/L. Foeger

برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان شٹیفان زائبرٹ نے حکومتی موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ہم طرفین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشیدگی کو دور کرنے کے لیے مکالمت کا سلسلہ شروع کریں۔ ہم دونوں ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع بروئے کار لائیں۔‘‘

برلن حکومت کے ترجمان نے سعودی عرب کی طرف سے شیعہ مذہبی رہنما نمر النمر سمیت 47 قیدیوں کو سزائے موت دینے کے عمل پر برلن حکومت کی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاض کے اس اقدام سے ایران میں مشتعل افراد کے جذبات بھڑک اُٹھے ہیں، جنہوں نے تہران میں سعودی سفارتخانے کو حملے کا نشانہ بنایا ہے اور یوں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں ابتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔

زائبرٹ کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب دونوں ہی علاقائی سیاسی بساط کے دو کلیدی مہرے ہیں، ’’ یہ دونوں ممالک شام اور یمن کے سنگین بحران کے حل اور علاقائی استحکام اور امن کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر کے ترجمان مارٹن شیفر نے کہا ہے، ’’ جرمنی سمیت بین الاقوامی برادری سالوں سے اس تمام خطے میں امن و استحکام کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان سب کی یہ کوشش رہی ہے کہ اس خطے میں پائے جانے والے متعدد بحرانوں کی شدت میں اضافہ نہ ہو۔‘‘ اشٹائن مائر نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ایران اور سعودی عرب دونوں کو بحران اور تنازعے کے حل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘

جرمنی کی وزارت مالیات کے ایک ترجمان نے دریں اثناء ایک بیان میں کہا ہے، ’’برلن سعودی عرب میں ہونے والی تمام پیش رفت اور تازہ ترین صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ مستقبل کے لیے کسی ممکنہ دفاعی برآمدات کی منظوری کی صورت میں وہ مستقبل کی منصوبہ سازی کرے گا۔‘‘

جرمنی کی اپوزیشن حالیہ دنوں کے دوران حکومت سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے۔ سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا خام تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ یہ خلیجی ملک جرمن ڈیفنس ایکسپورٹ اور دیگر ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کا ایک مرکزی خریداربھی ہے۔

جرمنی کے پڑوسی ملک فرانس کے وزیر خارجہ لوراں فابیوس نے دریں اثناء ایران اور سعودی عرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فابیوس کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ’’فرانس اس پورے خطے میں تمام فریقوں کے مابین مکالمت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔‘‘ انہوں نے ایک کابینہ میٹنگ کے دوران بیان میں یہ بھی عندیہ بھی دیا کہ ایرانی صدر حسن روحانی آئندہ ہفتے پیرس کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سنی ملک سعودی عرب اور شیعہ ایران کے مابین عشروں سے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ دونوں تیل کے ذخائر سے مالا مال ہیں اور گزشتہ پانچ برسوں سے چلے آ رہے ہیں شام کے بحران نے ان دونوں ممالک کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔ ایران شامی حکومت کی پشت پناہی کرتا ہے تو سعودی عرب یمن میں شیعہ باغیوں کے خلاف جنگ میں اپنی فوجی قیادت میں ایک عالمی عسکری اتحاد کی سربراہی کر رہا ہے۔

Großbritannien Proteste gegen die Hinrichtung von Nimr Al-Nimr in Saudi Arabien
ایران میں سعودی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Reuters/T. Melville

اُدھر روس سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازعے کے خاتمے کے لیے مصالحت کروانے والے فریق کی حیثیت سے کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان میں کہا، ’’روس ریاض اور تہران کے بیچ مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے ماسکو کے اس کردار کی تفصیلات پر روشنی نہیں ڈالی۔

ایک روسی سفارتی ذریعے کے حوالے سے نیوز ایجنسی TASS نے کہا ہے کہ ماسکو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور اُن کے سعودی ہم منصب کی بات چیت کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس بیان میں انہوں نے کہا، ’’اگر ہمارے ساتھی سعودی عرب اور ایران ملاقات پر رضامندی ظاہر کریں تو ہماری طرف سے یہ پیشکش میز پر موجود رہے گی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں