1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی شاہی خاندان کے اعلی فوجی کمانڈر برطرف

1 ستمبر 2020

سعودی حکومت نے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک اعلی فوجی کمانڈر اور ان کے بیٹے کو بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hpqI
Saudi-Arabien Kronprinz Mohammed bin Salman
تصویر: picture-alliance/abaca/Balkis Press

سعودی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شاہی خاندان کے سینیئر رکن اور جوائنٹ فورسز کے کمانڈر شہزادہ فہد بن ترکی اور ان کے بیٹے الجوف خطہ کے نائب امیر عبدالعزیز بن فہد کو بدعنوانی کے الزامات میں ان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف تفتیش شروع کردی گئی ہے۔

سعودی حکومت کی طرف سے جاری ایک شاہی حکم نامے میں شہزادہ فہد بن ترکی اور ان کے بیٹے عبدالعزیز بن فہد کی برطرفی کوحکومت کی طرف سے جاری انسداد بدعنوانی مہم کے سلسلے کی کڑی قرار دیا گیا ہے۔

شاہ سلمان کی طرف سے جاری ایک شاہی فرمان کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کے متعدد دیگر افسران اور سویلین ملازمین کے خلاف بھی بدعنوانی کے مبینہ الزامات کی جانچ کی جارہی ہے۔

شہزادہ فہد بن ترکی یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد کے کمانڈر تھے۔

سعودی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہی خاندان کے ان دو افراد نے چار افسران کے ساتھ مل کر 'مشتبہ مالی لین دین‘ کی تھی، جس کے لیے ان کی جانچ ہوگی۔

سرکار ی میڈیا کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سفارش پر فہد بن ترکی کے نائب مطلق بن سالم کو فوجی اتحاد کا نیا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے۔

سعودی مصنف اور تجزیہ کار علی شہابی کا کہنا ہے کہ ایک کمانڈر کو برطرف کرنے کا حکومت کا فیصلہ 'فوج میں موجود بدعنوانی کے خلاف واضح عوامی تنبیہ ہے۔‘

 

شہزادہ فہد بن ترکی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد کے کمانڈر تھے۔
شہزادہ فہد بن ترکی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد کے کمانڈر تھے۔تصویر: Getty Images/A. Al-Qadry

افسران کے خلاف حکومت کی یہ تازہ ترین کارروائی اس بات کا مظہر ہے کہ مملکت میں بدعنوانی موجود ہے۔  سیاحتی پروجیکٹوں میں رشوت خوری کے الزامات میں گزشتہ ماہ بھی کئی سینئر سعودی سکیورٹی کمانڈروں اور افسران کو برطرف کیا گیا تھا۔

حالانکہ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز سعودی شاہی خاندان کے افراد اور اعلی افسران کی برطرفی او رگرفتاری کا اصل مقصد ولی عہد شہزادہ کو اقتدار تک پہنچنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔

سال 2017 میں شاہی خاندان کے درجنوں اراکین، وزراء اور اہم تاجروں کو گرفتار کرکے دارالحکومت ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید کردیا گیا تھا۔ ان میں سے متعدد کو کئی ہفتوں کے بعد جرمانہ ادا کرنے کے لیے رضامند ہوجانے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ سعودی حکام کے مطابق پیسے کے عوض رہائی سے سعودی حکومت کو 107ارب ڈالر حاصل ہوئے تھے۔

رواں برس مارچ میں حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بدعنوانی کے الزامات میں 298 سعودی افسران کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ ایک غیر شفاف عدالتی نظام میں اس بات کا خدشہ ہے کہ اس طرح کی گرفتاریاں ”ممکنہ طور پر غیر قانونی طریقے" سے ہوئی ہوں۔

جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں فوجی اورعدالتی حکام بھی شامل تھے۔ سعودی انسداد بدعنوانی ادارے کے مطابق ان لوگوں کو 101ملین ڈالر رشوت اور مالی گھپلے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انسداد بدعنوانی ادارے کے مطابق 674 حکومتی ملازمین کی مجرمانہ سرگرمیوں کی جانچ کے بعد ان کی گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔ ادارے نے تاہم نہ تو کسی مشتبہ شخص کا نام بتایا تھا اور نہ ہی یہ کہ بدعنوانی کے معاملے کی کب اور کیسے تفتیش کی گئی۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی انسداد بدعنوانی کی مہم کو ان کے ناقدین اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں