سعودی سپر مارکیٹیں ترک سامان کے بائیکاٹ میں شامل
20 اکتوبر 2020سعودی عرب کی بڑی سپر مارکیٹوں نے ترک برآمدات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک ساختہ اشیاء کے بائیکاٹ کے مطالبات سعودی عرب میں پہلے سے کیے جا رہے ہیں۔ اب اس میں سارے ملک میں پھیلی ہوئی بڑی تھوک اور پرچون سپر مارکیٹیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ان مارکیٹوں میں العثیم مارکیٹ، الدانوب مارکیٹ، بندہ تھوک مارکیٹ اور تمیمی مارکیٹ شامل ہیں۔
جمال خاشقجی کیس: ترکی نے مزید چھ سعودی شہریوں پرفرد جرم عائد کردی
ترک صدر مسئلہ کشمیر دوبارہ اقوام متحدہ میں لے آئے
سعودی سپر مارکیٹیں اور ترک مال
ان سپرمارکیٹوں کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ترک برآمدات کے موجودہ ذخیرے کے خاتمے پر نیا مال آرڈر نہیں کریں گے۔ ان مارکیٹوں کی جانب ترک مال کا بائیکاٹ کرنے کی فیصلے کے حوالے سے ابھی صرف العیثم مارکیٹ نے ٹویٹر پر بیان جاری کیا۔ اس بیان میں کہا گیا کہ ان کے لیڈرز، ان کی حکومت اور ملکی سلامتی ان کے لیے بہت معتبر اور سرخ لکیر کی طرح ہے۔ مزید کہا گیا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ملک اس سرخ لکیر کو نقصان پہچانے کی کوشش کرے۔
بائیکاٹ سے سعودی اعلانِ لاتعلقی
دوسری جانب سعودی میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ حکام نے مارکیٹوں پر ترک سامان کے بائیکاٹ کی کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی ہے۔ اس اعلان کے باوجود ایسے واضح نشانات مارکیٹوں عام ہیں جن میں عام خریداروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ترکی سے برآمد شدہ سامان کو خریدنے سے گریز کریں۔ یہ نشانات گزشتہ ہفتے کے دوران بھی دارالحکومت ریاض کی بڑی تھوک مارکیٹوں میں نظر آ رہے تھے۔
ترک سامان اور مال کے بائیکاٹ کا اعلان غیر حکومتی ادارے چیمبر آف کامرس کے صدر عجلان العجلان نے رواں ماہ کے اوائل میں کیا تھا۔ دس اکتوبر کو ترکی کے آٹھ بڑے کاروباری حضرات نے سعودی عرب سے درخواست کی تھی کہ وہ ترک حکومت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کے مناسب اقدامات کو متعارف کرائے تا کہ کشیدگی اور تناؤ کی صور حال میں بہتری پیدا ہو سکے۔
بائیکاٹ کا سعودی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ
سعودی سوشل میڈیا پر ترک مصنوعات اور مال کے بائیکاٹ کا رجحان گزشتہ ماہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس مہم کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ روان برس جولائی میں سعودی عرب ایک سو پچاسی ملین کا ترک مال پہنچا تھا۔ ایسا تاثر صارفین نے دیا ہے کہ ترک سامان کی عدم دستیابی سے وہ معیاری مصنوعات سے محروم ہو جائیں گے۔
ایک سعودی خاتون صارف اُم لناصر الحربی کا نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپر مارکیٹوں میں ترکی سے لائی ہوئی اشیاء کو خریدنے سے اجتناب اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کے ساتھ ہیں۔ یہ خاتون العثیم مارکیٹ میں خریداری کرنے پہنچی تھیں۔
ترک ایکسپورٹرز کی مشکلات بڑھتی ہوئیں
سعودی عرب کی جانب سے ترک مصنوعات اور دوسرے سامان کی غیر اعلانیہ بائیکاٹ نے ترکی کے ایکسپورٹرز کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ابھی ان مشکلات کا حجم قدرے کم ہے کیونکہ عرب دنیا میں برآمد شدہ سامان کا سب سے بڑا مرکز متحدہ عرب امارات ہے اور وہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ یہ عرب ریاست کھلی سعودی حلیف ہے لیکن مستقبل میں کونسی راہ اپناتی ہے، وہ ابھی غیر واضح ہے۔ متحدہ عرب امارات کئی ترک خارجہ پالیسیوں کی مخالف بھی ہے۔
ترک سعودی تعلقات میں کشیدگی
سعودی عرب اور ترکی کے درمیان کشیدگی کی ابتدا سن 2011 میں 'عرب بہار‘ کے نام مختلف عرب ملکوں میں شروع ہونے اسلام پسندوں کے مظاہروں کی حمایت ہے۔ اس کشیدگی میں اس وقت شدید اجافہ ہو گیا جب استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کا حیران کن انداز میں قتل ہو گیا تھا۔ تھزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب ان واقعات پر بظاہر وقت کی گرد پڑ چکی ہے لیکن دونوں ملک کشیدگی برقرار رکھنے کے ساتھ اس میں بتدریج شدت پیدا کرتے جا رہے ہیں. اس کے علاوہ قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے سے پیدا ہونے والے بحران اور لیبیا کے تنازعے میں ترکی نے واضح انداز میں دوحہ حکومت کی حمایت بھی کشیدگی میں شدت پیدا کرنے میں اہم خیال کی گئی ہیں۔
ع ح، ع ت (روئٹرز)