1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ریال کی قدر دو سال کی نچلی ترین سطح پر آ گئی

15 اکتوبر 2018

ریاض حکومت کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے باعث سعودی کرنسی کی قدر دو سال کے دوران نچلی ترین سطح پر آ گئی ہے اور سعودی عرب کے جاری کردہ انٹرنیشنل بانڈز کی قیمت بھی کم ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/36YzG
تصویر: picture alliance/dpa/T. Brakemeier

متحدہ عرب امارات میں دبئی سے پیر پندرہ اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جمال خاشقجی کے ترکی کے شہر استنبول میں قریب دو ہفتے قبل لاپتہ ہو جانے کے بعد سے ریاض حکومت کو نہ صرف شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے بلکہ کئی ممالک کی طرف سے یہ شبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس سعودی صحافی کے مبینہ قتل میں سعودی حکومت کا ہاتھ ہے۔

Jamal Khashoggi
جمال خاشقجیتصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo

اسی وجہ سے آج پیر کے روز بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں سعودی عرب سے متعلق یہ خدشات بھی پائے گئے کہ خاشقجی کی گمشدگی کے باعث سعودی حکمرانوں کو جس دباؤ کا سامنا ہے، وہ خلیج کی اس قدامت پسند عرب بادشاہت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

سعودی ریال کی قدر میں کمی

یہی وجہ ہے کہ پیر 15 اکتوبر کو نہ صرف سعودی کرنسی ریال اپنی قدر میں کمی کے بعد گزشتہ دو سال کے دوران اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی بلکہ اسی بے یقینی کی کیفیت نے ریاض حکومت کے جاری کردہ بین الاقوامی بانڈز کی قیمتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کے دیگر ممالک کی مالیاتی منڈیوں میں کاروبار کے دوران پیر کے دن سعودی ریال کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید کم ہو کر 3.7524 ریال فی ڈالر تک گر گئی۔ یہ سعودی کرنسی کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں اتنی کم شرح تبادلہ ہے، جو ستمبر 2016ء کے بعد سے اب تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

بیرونی سرمایہ کاری پہلے ہی کم

بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’فِچ‘ کے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے ڈائریکٹر کرِس یانِس کرَسٹِنز نے روئٹرز کو بتایا کہ جمال خاشقجی کا معاملہ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر سعودی عرب میں جاری اصلاحات کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔

Saudi-Arabien Reccep Erdogan & König Salman bin Abdulaziz Al Saud
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ترک صدر ایردوآن، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/Turkish Presidency/Y. Bulbul

کرَسٹِنز نے کہا، ’’سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا بہاؤ پہلے ہی بہت کم ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ملکی معیشت میں نجی شعبے کی کمزوری اور ریاستی ضوابط سے متعلق پائی جانے والی بے یقینی کی صورت حال ہیں۔‘‘ ایسے میں بین الاقوامی دباؤ، کرنسی کی قدر میں زیر و بم اور بانڈز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ غیر ملکی سرمایہ کاری کے پہلے سے کم بہاؤ کو مزید متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘

سٹاک مارکیٹ بھی نقصان میں

ملکی کرنسی اور بانڈز ہی نہیں بلکہ جمال خاشقجی کے معاملے کی وجہ سے کاروبار کے گزشتہ صرف دو دنوں کے دوران سعودی سٹاک مارکیٹ میں 7.2 فیصد کی گراوٹ بھی دیکھی گئی۔ اس کے برعکس آج پیر کو اس انڈکس میں دوبارہ دو فیصد کی بہتری ریکارڈ کی گئی۔

جمال خاشقجی سعودی عرب کے شہری لیکن امریکا میں رہنے والے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے ایک ایسے کالم نگار تھے، جو دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ ترک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق  انہیں مبینہ طور پر قتل کیا جا چکا ہے اور ایسے کوئی ثبوت نہیں کہ وہ استنبول میں سعودی قونصلیٹ جنرل سے زندہ باہر نکلے تھے۔

بیرونی سفارتی دباؤ

سعودی حکومت ان دعووں کی بھرپور تردید کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ترک صدر ایردوآن نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر 60 سالہ خاشقجی کی گمشدگی یا مبینہ قتل میں ریاض حکومت کا ملوث ہونا ثابت ہو گیا تو واشنگٹن سعودی عرب کے خلاف اقدامات کرے گا۔

دریں اثناء سعودی عرب پر امریکا کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے بھی کافی سفارتی دباؤ ہے۔ ان تینوں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ریاض حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے کی جلد از جلد وضاحت کو یقینی بنائے۔

ان تینوں یورپی وزرائے خارجہ کے اتوار 14 اکتوبر کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا، ''ہم اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس بارے میں سعودی حکومت کی طرف سے ایک مفصل اور جامع جواب کے انتظار میں ہیں۔‘‘

م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں