سعودی خواتین کو اولمپک کھیلوں میں شرکت کی اجازت
17 مئی 2012گزشتہ ماہ یعنی اپریل میں سعودی عرب کی اسپورٹس کمیٹی کے سربراہ نے کہا تھا کہ اس بار موسم گرما میں لندن میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں میں سعودی عرب کی سرکاری اولمپک ٹیم میں ایک بھی خاتون ایتھلیٹ شامل نہیں ہو گی۔ تاہم انہوں نے انفرادی طور پر ان کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین ایتھلیٹس کی اولمپک میں شرکت کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔
گزشتہ روز یعنی بُدھ کو سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد برطانوی سفیر نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں بہت زیادہ امید ہے کہ امسالہ گرما اولمپک کھیلوں کے مقابلوں میں ہم سعودی ایتھلیٹس کو انفرادی حیثیت میں حصہ لیتے دیکھ سکیں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ سعودی حکام کے ساتھ اس بارے میں اُن کی بات حیت مثبت رہی۔
سعودی حکام کی طرف سے اس امر کی اجازت دینے کے فیصلے کو ریاض حکومت میں شامل اصلاحات پسندوں اور سخت گیر موقف رکھنے والوں کے مابین مفاہمت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
اس معاملے کی طرف عالمی توجہ اُس وقت مبذول ہوئی جب ہیومن رائٹس واچ نے سعودی عرب کی ٹیم کی اولمپک گیمز میں شرکت پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کی وجہ یہی بتائی کہ اس عرب ریاست نے کبھی بھی خواتین ایتھلیٹس کو اس ورلڈ ایونٹ میں حصہ لینے نہیں دیا۔ واضح رہے کہ ہر بار اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے والی سعودی ٹیم مردوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں تیل کا برآمد کنندہ سب سے بڑا ملک سعودی عرب اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ قدامت پسند ملک ہے۔ وہاں طاقتور مذہبی رہنما بارہا خواتین کو کھیلوں سے یہ کہ کر خبردار کرتے رہے ہیں کہ یہ عوامی شرم و حیا اور اُن کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔
سعودی مردوں کو خواتین کے مقابلے میں انصاف کے اداروں میں بھی زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ سعودی عورت کو روزگار، سیاحت یہاں تک کے بینک میں اکاؤنٹ کھولنے جیسے معاملے میں بھی ’ولی‘ کے طور پر ایک مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کے اسکولوں اور کالجوں میں جسمانی ورزش کی کلاسوں کی اجازت نہیں ہے۔ خواتین کے Gyms صرف اسی صورت میں قائم کیے جا سکتے ہیں، جب انہیں وزارت صحت کی طرف سے باقاعدہ منظوری کے ساتھ بطور ہیلتھ سینٹر قائم کیا جائے۔
km/ia (Reuters)