1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ایرانی تنازعے میں پاکستانی ثالثی کامیاب لیکن سست رفتار

3 اگست 2020

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اسلام آباد کی طرف سے امریکا کی درخواست پر کی جانے والی سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی کوششوں میں اب تک کی پیش رفت سست رفتار رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3gMDu
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی گزشتہ برس اکتوبر میں تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ لی گئی ایک تصویرتصویر: AFP/Iranian Presidency

دبئی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ بات عمران خان نے پیر تین اگست کو عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔ الجزیرہ نے اس انٹرویو کے کچھ حصے تین اگست کو نشر بھی کر دیے۔ مکمل انٹرویو بدھ پانچ اگست کو نشر کیا جائے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم کو خلیج کے خطے کی دو طاقت ور لیکن حریف ریاستوں کے طور پر سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی درخواست امریکا نے کی تھی۔ واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کے بعد ہی عمران خان نے گ‍زشتہ برس اکتوبر میں تہران اور ریاض کے دورے کیے تھے۔

ان دوروں کا مقصد شیعہ اکثریتی آبادی والے اسلامی ملک ایران اور وہابی مسلک کی پیروکار قدامت پسند سعودی بادشاہت کے مابین بات چیت میں سہولت کاری تھا۔

عمران خان نے یہ ثالثی کوششیں اس وقت کی تھیں، جب خلیج فارس کے علاقے میں تیل کی صنعت سے جڑے مفادات پر وہ حملے کیے گئے تھے، جن کے لیے امریکا نے الزام ایران پر عائد کیا تھا۔ ان حملوں کا نتیجہ ایران اور سعودی عرب کے مابین شدید کشیدگی کی صورت میں بھی نکلا تھا۔

Saudi-Arabien Mekka Gipfel islamischer Staaten
اپنی ثالثی کوششوں کے دوران پاکستانی وزیر اعظم ایران کے بعد سعودی عرب بھی گئے تھےتصویر: AFP/Saudi Royal Palace/B. Al-Jaloud

اس پس منظر میں عمران خان نے الجزیرہ ٹیلی وژن کے ساتھ انٹرویو میں کہا، ''ہماری سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کی کوششیں رکی نہیں ہیں۔ ہمیں کامیابی حاصل ہو رہی ہے، لیکن سست رفتاری سے۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم نے قطر کے اس نشریاتی ادارے کو بتایا، ''ہم نے ایران اور سعودی عرب کے مابین فوجی تصادم کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کی اور ہماری یہ کوشش کامیاب رہی۔‘‘

ایران اپنے ہاں اسلامی انقلاب کے بعد سے خطے میں سعودی عرب کا بڑا حریف ملک ہے۔ امریکا کے ساتھ تہران کے تعلقات اُس وقت دوبارہ شدید کشیدہ ہو گئے تھے، جب صدر ٹرمپ نے تہران کے ساتھ اس کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے 2018ء میں واشنگٹن کے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔

م م / ع آ (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں