1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں صدر کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا عوامی احتجاج

9 اپریل 2022

سری لنکا میں آج ہفتہ نو اپریل کے روز ہزارہا شہری ملک کے مختلف شہروں میں صدر راجا پاکشے کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرین ملک میں جاری سیاسی بحران اور ناقابل یقین حد تک مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/49hv7
سری لنکا میں حکومت مخالف عوامی احتجاج کی موجودہ لہر کئی مرتبہ پرتشدد رنگ بھی اختیار کر چکی ہےتصویر: Dinuka Liyanawatte/REUTERS

کولمبو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آج کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے، ملک میں صدر گوٹابایا راجا پاکشے کے خلاف آج تک کیے جانے والے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔ اس دوران عام شہری ملک میں پائے جانے والے بحرانی سیاسی حالات اور ہوش رُبا حد تک مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

سری لنکا میں اقتدار پر قابض خاندان مشکل میں

جنوبی ایشیا کی 22 ملین کی آبادی والی جزیرہ ریاست سری لنکا میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نہ صرف ریکارڈ حد تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے بلکہ اشیائے خوردنی کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا کو آج جس کثیر الجہتی بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، اسے اس ملک کو درپیش 1948ء میں اس کی آزادی سے لے کر آج تک کے شدید ترین بحران کا نام دیا جا رہا ہے۔

صدر کے استعفے کا مطالبہ

سری لنکا میں حکومت کے خلاف یہ مظاہرے گزشتہ ماہ شروع ہوئے تھے اور آج زیادہ تر سوشل میڈیا پر کیے جانے والے اعلانات کے بعد عوامی سطح پر اہتمام کردہ احتجاجی مظاہروں میں عوام کی سب سے بڑی تعداد نے حصہ لیا۔

Sri Lanka's Präsident Gotabaya Rajapaksa
سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکشےتصویر: Andy Buchanan/AP/picture alliance

بھارت پر سری لنکا کے معاشی بحران کے مضمرات

اس دوران دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں کی تعداد میں مرد اور خواتین مظاہرین شہر کے ساحلی علاقے میں جمع ہوئے اور انہوں نے اپنے طور پر نوآبادیاتی دور میں تعمیر کردہ صدارتی سیکریٹیریٹ کا محاصرہ بھی کر لیا۔ یہ ہزاروں مظاہرین سری لنکا کے قومی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور صدر گوٹابایا راجا پاکشے کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے 'گوٹا گو ہوم‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

اس کے علاوہ کولمبو اور کئی دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے مظاہروں کے دوران شرکاء ایسے نعرے بھی لگا رہے تھے، جن میں صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جا رہا تھا: ''بس بہت ہو گیا‘‘، ''وقت آ گیا ہے کہ اب صدر گھر چلے جائیں۔‘‘

سری لنکا: اپوزیشن نے اتحادی حکومت کی تجویز مسترد کردی، مظاہروں کا سلسلہ جاری

اِن مظاہروں میں شریک ایک شہری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یہ ہزاروں مظاہرین وہ معصوم شہری ہیں، جنہیں اب اپنے زندہ رہنے کے لیے بھی مسلسل جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ اس حکومت کو لازمی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے اور کسی نئے باصلاحیت رہنما کو ملک کا انتظام سنبھالنا چاہیے۔‘‘

BG Sri Lanka | Wirtschaft, Gesellschaft, Tourismus
ایندھن کی قلت کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت کو روزانہ تقریباﹰ پچاس ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہےتصویر: Ishara S. Kodikara/AFP/Getty Images

کاروباری طبقے کی شکایت

سری لنکا میں موجودہ صدر راجا پاکشے کی انتخابی مہم کے لیے رقوم ماضی میں زیادہ تر ملکی کاروباری طبقے نے مہیا کی تھیں۔ اب لیکن یہ کاروباری طبقہ بھی صدر سے ناراض ہے اور اس بات کی شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ حکومت نے اشیائے خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام شہریوں کو بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے۔

سری لنکا: مظاہروں کے درمیان کابینہ کے تمام وزراء نے استعفیٰ دے دیا 

ربڑ کی مصنوعات تیار اور برآمد کرنے والے صنعتی کاروباری اداروں کی قومی سری لنکن تنظیم کے سربراہ روہن ماساکورالا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران تو کسی بھی صورت جاری نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ صرف ایک ہفتے کے اندر اندر ایک عبوری حکومت اور نئی ملکی کابینہ کی ضرورت ہے۔‘‘

سری لنکا میں کاروباری طبقے کی یہ قومی اور دیگر اقتصادی شعبوں کی ایسی ہی کم از کم 22 دوسری ملک گیر کاروباری تنظیمیں بھی یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ملکی حکومت اب تبدیل ہونا چاہیے۔

اقتصادی ماہرین کا اندازہ ہے کہ پورے ملک میں صرف ایندھن کی قلت کی وجہ سے ہی قومی معیشت کو پہنچنے والا یومیہ نقصان تقریباﹰ 50 ملین ڈالر ہو چکا ہے۔

م م / ع آ (اے ایف پی، ڈی پی اے)