سال دو ہزار نو : یورپ میں زبردست ثقافتی گہما گہمی کا سال
10 جنوری 2009ہر سال یورپ کے کسی ایک شہر کو ثقافتی دارالخلافہ قرار دینے کی تجویز سن 1985ء میں یونانی فنکارہ اور وزیرثقافت میلینا میرکُوری نے پیش کی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ہر سال کم از کم ایک شہر کے باقی یورپ کے ساتھ ثقافتی رشتوں کو اُجاگر کیا جائے۔
سن 2008ء میں ناروے کے شہرسٹاوانگراوربرطانوی شہر لور پول کو یورپ کے ثقافتی دارالخلافے کی حیثیت حاصل رہی۔ اِس سال ثقافتی دارالخلافہ قرار دئے جانے والے شہروں کے نام ہیں، ولنئس اورلِنس۔
نصف صدی تک سابق سوویت یونین میں شامل رہنے والے یورپی ملک لیتھوانیا کے لئے دو ہزار نو کا سال کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اِس سال نہ صرف اِس ملک کے دارالحکومت ولنئس کو یورپ کا ثقافتی دارالخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ لیتھوانیا اپنی ایک ہزارویں سالگرہ بھی منا رہا ہے کیونکہ تاریخ میں لیتھوانیا نام کی جگہ کا ذکر سب سے پہلےسن 1009ء میں ملتا ہے۔
دارالحکومت ولنئس سن 1994ء سے عالمی ادارے یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل ہے کیونکہ اِس شہر نے گوتھک، نشاۃ ثانیہ اورباروک دورکی عمارات کو اب تک سنھال کر رکھا ہوا ہے۔ اِس سال ولنئس کی سیرکوجانے والے تقریباً تین ملین سیاح نہ صرف یہ تاریخی عمارتیں دیکھ سکیں گے بلکہ مختلف طرح کی نوسوسے زیادہ ثقافتی تقریبات اورپروگراموں میں بھی شرکت کر سکیں گے۔
اِسی طرح کے ایک پروگرام کا مقصد یہاں بسنے والی روما خانہ بدوش اقلیت کی صورتحال کی جانب بھی توجہ دلانا ہے۔ روما خانہ بدوشوں کے بچے اپنے روایتی گیتوں کے ساتھ شامل ہوں گے، ولنئس کے اِس سال پیش کئے جانے والے ایک ثقافتی منصوبے ’’ٹَیرنو وِلنا‘‘ میں۔ اِس منصوبے کا مقصد اُس امتیازی سلوک کو اُجاگر کرنا ہے، جس کا دیگر یورپی ملکوں کی طرح لیتھوانیا میں بھی روما خانہ بدوشوں کو سامنا ہے۔
منصوبے کے روحِ رواں سینتیس سالہ Augustinas Beinaravicius، جو کئی سال سوئٹزرلینڈ میں گذار چکے ہیں، بتاتے ہیں:’’ ہم ایک اسٹیج تیار کریں گے اور وہاں اِس علاقے کے خانہ بدوشوں کو آ کر کچھ نہ کچھ اسٹیج پر پیش کرنے کی دعوت دیں گے۔ وہ کوئی کھیل سکتے ہیں، رقص کر سکتے ہیں اور کہانیاں سنا سکتے ہیں۔‘‘
آسٹریا کا دارالحکومت ویانا اور اُس کا ایک اور اہم شہر زالس بُرگ عام طور پر ثقافتی اعتبار سے زیادہ بھرپور شہر تصور کئے جاتے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں لِنس کی شہرت ہمیشہ ایک ایسے اقتصادی اور صنعتی مرکز کی سی رہی ہے، جس کی فضا میں دھوئیں کی آمیزش ایک عام سی بات سمجھی جانی چاہیے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے کاروباری اور صنعتی اداروں کے کرتا دھرتا زیادہ سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے نہ صرف شہر کی فضا کو صاف ستھرا بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ اُنہوں نے شہر کے ثقافتی تشخص کو بھی مستحکم بنانے پر کافی سرمایہ کاری کی ہے۔
’’لِنس فَیر اَینڈَرٹ‘‘ یعنی لِنس بدل رہا ہے۔ یہ ہے ثقافتی دارالخلافے کی حیثیت سے جرمن زبان میں لِنس شہر کا مَوٹو۔ شہر کی ایک خاتون گائیڈ ایفا ہوفر بتاتی ہیں:’’لِنس اپنے آپ کو اِسی انداز میں دُنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ ہمارا نیا مَوٹو بھی ہے۔ لِنس بدل رہا ہے۔ ہر شخص اپنے اندز میں اِس کی تشریح کر سکتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لِنس اپنے آپ کو بدل رہا ہے۔ یا یہ بھی کہ یہ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں یا یہاں کے شہریوں کو بدل رہا ہے۔‘‘
سال بھر میں کوئی دو سو پروگرام پیش کئے جائیں گے، جو سوچنے کی تحریک دیں گے اور آسٹریا اور یورپ میں لِنس کے ماضی، حال اور مستقبل سے روشناس کروائیں گے۔ نازی سوشلسٹ دور کے حکمران آڈولف ہٹلر نے اِسی لِنس شہر میں اپنا بچپن گذارا تھا اور وہ اِس شہر کو ایک بڑے ثقافتی مرکز میں تبدیل کرنے کے خواب دیکھتا تھا۔ لِنس شہر کے وَسط میں واقع اُس ٹاؤن ہال میں آج بھی میئر کا دفتر ہے، جہاں بارہ مارچ سن اُنیس سو اڑتیس کو چالیس ہزار انسانوں کے ایک پُرجوش ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے اڈولف ہٹلر نے آسٹریا کے جرمنی کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔
یہ سال ہنگری کے لئے بھی خاص طور پر بڑی تقریبات کا سال رہے گا کیونکہ اِس سال نہ صرف مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان آہنی پردہ گرنے کے تاریخی واقعے کو بیس سال پورے ہو رہے ہیں بلکہ یورپی یونین میں ہنگری کی رُکنیت کے بھی اِس سال پانچ برس مکمل ہو رہے ہیں۔ساتھ ساتھ یہ سال ہنگری میں ثقافتی سیاحت کا بھی سال ہے اور مشرقی یورپ کا یہ خوبصورت ملک اپنے تمام تر فطرتی حسن کو سیاحوں سے متعارف کروانا چاہتا ہے، جس میں یورپ کے ایک بڑے دریا ڈینیوب کے دلکش مناظر بھی شامل ہیں۔
سن 2010ء میں یورپ کے اکٹھے تین شہروں کو یورپی ثقافتی دارالخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل ہو گا۔ یہ ہیں، جرمنی کا شہر اَیسن، ترکی کا شہر استنبول اور ہنگری کا شہر Pecs ۔ تینوں شہروں میں ابھی سے اگلے سال کو بھرپور طریقے سے منانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔