سال 2006 کے بعد 26 غریب ترین ممالک بدترین مالی حالت میں
14 اکتوبر 2024اتوار کے روز جاری اس رپورٹ کے مطابق یہ معیشتیں اوسطاً آج اس سے زیادہ غریب ہیں جتنی کہ وہ کووڈ انیس کی وبا سے پہلے تھیں۔ حالانکہ باقی دنیا بڑی حد تک اس صورت حال سے نکل چکی ہے اور اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار کو دوبارہ شروع کر چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غریب ترین ممالک قدرتی آفات اور دیگر مسائل سے بھی تیزی سے خطرے سے دوچار ہیں۔
کورونا وائرس : غریب ممالک میں غربت شدید تر
واشنگٹن میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سالانہ اجلاسوں سے ایک ہفتہ قبل جاری ہونے والی یہ رپورٹ انتہائی غربت کے خاتمے کی کوششوں کو ایک بڑے دھچکے کی تصدیق کرتی ہے اور اس سال عالمی بینک کی جانب سے دنیا کے غریب ترین افراد کے لیے اپنے فنانسنگ فنڈ کو بھرنے کے لیے 100 بلین ڈالر جمع کرنے کی کوششوں پر زور دیتی ہے۔
غریب ترین ممالک غریب تر ہوتے جا رہے ہیں
عالمی بینک نے کہا کہ زیر مطالعہ 26 غریب ترین معیشتیں، جن کی سالانہ فی کس آمدنی 1,145 سے کم ہے، کافی حد تک انٹرنشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے) کی امداد اور صفر کے قریب شرح سود کے قرضوں پر انحصار کر رہی ہیں۔ ان کا اوسط قرض جی ڈی پی کے تناسب کا 72 فیصد ہے جو گزشتہ 18 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اور گروپ کا نصف یا تو قرض کی پریشانی میں ہے یا اس کے زیادہ خطرے سے دوچار ہے۔
ایسے غریب ترین ممالک میں زیادہ تر ممالک ایتھوپیا سے چاڈ اور کانگو تک سب صحارا افریقہ میں ہیں، لیکن اس فہرست میں افغانستان اور یمن بھی شامل ہیں۔
قدرتی آفات بھی بدترین مالی حالت کی وجہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26 غریب ترین ممالک میں سے دو تہائی یا تو مسلح تنازعات کا شکار ہیں یا ادارہ جاتی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے نظم برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے، جو غیر ملکی سرمایہ کاری اور تقریباً تمام برآمدی اجناس کو روکتے ہیں، اور انہیں بار بار تیزی اور ٹوٹ پھوٹ کے چکروں سے دوچار کرتے ہیں۔
عالمی بینک کے چیف اکنامسٹ اندرمیت گل نے ایک بیان میں کہا، "دنیا کا بیشتر حصہ غریب ترین ممالک کی فہرست سے باہر نکل چکا ہے۔ آئی ڈی اے ان کی لائف لائن رہی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران اس نے زیادہ تر مالی وسائل 26 کم آمدنی والی معیشتوں میں ڈالے ہیں اور انہیں تاریخی دھچکوں سے نکلنے میں مدد کی ہے۔"
قدرتی آفات نے بھی پچھلی دہائی کے دوران ان ممالک کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ورلڈ بینک نے کہا کہ 2011 اور 2023 کے درمیان قدرتی آفات کا تعلق جی ڈی پی کے 2 فیصد کے اوسط سالانہ نقصان سے تھا، جو کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں اوسط سے پانچ گنا زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ یہ معیشتیں، جن کے ٹیکس نظام سے باہر کام کرنے والے غیر رسمی شعبے ہیں، اپنی مدد کے لیے مزید کام کریں۔ اس میں ٹیکس دہندگان کی رجسٹریشن اور ٹیکس کو آسان بنا کر ٹیکس وصولی کو بہتر بنانا شامل ہے۔
ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز)