1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق ایرانی صدر احمدی نژاد صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل

2 جون 2024

محمود احمدی نژاد نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر کے ساتھ اختلافات کے بعد سن دو ہزار سترہ میں شوریٰ نگہبان نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4gXkL
Iran Präsident Mahmoud Ahmadinejad
تصویر: Asmaa Waguih/REUTERS

ایران میں رواں ماہ کی 28 تاریخ کو صدارتی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ایرانی خبر رساں اداروں کے مطابق سابق صدر محمود احمدی نژاد نے ان انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد ایران میں ان انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔

تاہم اسے انتخابی دوڑ میں شامل ہونے سے انہیں روکا بھی جا سکتا ہے۔ علماء و فقہاء کے زیرِ قیادت ملک کی شوریٰ نگہبان (گارڈیئن کونسل) امیدواروں کی جانچ پڑتال کرے گی، جس کے بعد 11 جون کو اہل امیدواروں کی فہرست شائع ہو گی۔

احمدی نژاد ایران کے پاسداران انقلاب کے سابق رکن بھی ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ سن 2005 میں ایران کے صدر کے طور پر منتخب ہوئے تھے اور سن 2013 میں مدت ختم ہونے پر اس عہدے سے دستبردار ہوئے تھے۔

انہیں گارڈین کونسل یا شوریٰ نگہبان نے سن 2017 کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ اس سے ایک سال قبل سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ ان کا انتخاب ان کے اور ملک کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔

Iran |  ehemalige Präsident Mahmoud Ahmadinejad
احمدی نژاد کو ان الیکشنز میں حصہ لینے سے روکا جاسکتا ہے۔ تصویر: Vahid Salemi/dpa/AP/picture alliance

احمدی نژاد نے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ’’حتمی اختیارات‘‘ پر بھی ’’چیک اینڈ بیلنس رکھنے‘‘ کی وکالت کی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں فریقین کے مابین اختلافات کی، جو دراڑ پڑی، وہ آج تک برقرار ہے۔

سن 2018 میں علی خامنہ ای پر غیر معمولی تنقید کرتے ہوئے احمدی نژاد نے انہیں ایک خط لکھا تھا، جس میں ''آزادانہ انتخابات‘‘  کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سن 2009 کے انتخابات میں تاہم حالات کچھ مختلف تھے۔ ان کے منتخب ہونے کے بعد ملک میں، جو مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، ان کے دوران احمدی نژاد کو خامنہ ای کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان مظاہروں میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے تھے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اگرچہ ایران میں 85 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ریاست کے تمام معاملات پر حتمی رائے رکھتے ہیں لیکن ماضی میں ملکی صدور، اسلامی جمہوریہ ایران کے مغرب کے ساتھ روابط میں بہتری یا پھر تناؤ میں اضافے کی وجہ بنتے رہے ہیں۔

ر ب / ا ا (روئٹرز)