1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق اسٹریٹ چلڈرن اب ’پاکستان کے سفیر‘

عنبرین فاطمہ، کراچی27 مارچ 2014

برازیل میں اٹھائیس مارچ سے شروع ہونے بچوں کے عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کی نمائندگی پہلی مرتبہ ہو رہی ہے۔ ان مقابلوں میں وہ سابقہ بے گھر بچے شرکت کرتے ہیں، جو بحال ہونے کے بعد معاشرے کے بنیادی دھارے میں شامل ہو چکے ہوں۔

https://p.dw.com/p/1BWYf
تصویر: Getty Images

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں بے گھر بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نہ جانے کتنے ہی ایسے با صلاحیت بچے بھی ہیں، جنہیں اگر رہنمائی اور تربیت دی جائے تو یہ ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی بچوں کی مثال وہ فٹ بال ٹیم ہے، جو کراچی کی سڑکوں سے اٹھ کر اب برازیل میں ہونے والے بچوں کے عالمی فٹ بال کپ میں حصہ لینے کے لیے روانہ ہوئی ہے۔

Pakistan - Fußballtraining für Straßenkinder
ماضی میں سڑکوں پر بھٹکنے والے بچوں کے لیے عالمی کپ کا آغاز سن2010 میں کیا گیا تھاتصویر: Getty Images

’’اللہ بہتر جانتا ہے میں نے بہت محنت کی ۔ میں بہت خوش ہوں کہ میں جا رہا ہوں۔ باہر جاوں گا، کھیلوں گا اور پاکستان کو ری پریزینٹ کروں گا۔ پوری ٹیم کی، میری سب کی یہ ہی امید ہے کہ ہم جیت کر آئیں گے‘‘۔ یہ خیالات ہیں اویس علی کے جو فٹ بال کے اس عالمی کپ میں شرکت کرنے جا رہے ہیں، جس کا آغاز 28 مارچ سے برازیل کے شہر ریو ڈی جینرو میں ہو رہا ہے۔

کبھی گلیوں کی خاک سمجھے جانے والے ان بچوں کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے سپنے سجانے اور بے مقصد زندگی کی بجائے محنت کے ذریعے زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کی طرف گامزن کرنے کا سہرا ایک غیر سرکاری تنظیم آزاد فاونڈیشن کے سر جاتا ہے۔ جو سڑکوں پر رہنے والے بچوں یعنی اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی اور ان کی زندگی کو مقصد دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی تنظیم نے ہی ان بچوں کو برازیل میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ میں بھیجنے کا انتظام کیا ہے۔

آزاد فاؤنڈیشن کے بورڈ ممبر اطفان مقبول کے مطابق ان مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے ان بچوں کو دعوت دی جاتی ہے، جن کا بچپن سڑکوں پر گزرا ہو، ’’اس فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کا معیار یہ مقرر تھا کہ وہ بچے شرکت کر سکتے ہیں، جو بحال ہونے کے بعد معاشرے میں شامل ہو چکے ہوں۔ اس لیے ان کے لیے ایک کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا جس سے یہ بچے پورے ایک پراسیس سے گزرنے کے بعد منتخب ہوئے تھے۔ اور اب یہ عالمی سطح پر پاکستان کے سفیر بن کر جا رہے ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ یہ بچے ایک الگ شناخت رکھتے ہیں، اس اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بچوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔‘‘

ماضی میں سڑکوں پر بھٹکنے والے بچوں کے لیے عالمی کپ کا آغاز سن2010 میں کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ فیفا ورلڈ کپ سے تین ماہ قبل اسی شہر میں کہ جہاں ورلڈ کپ کے مقابلے منعقد ہونا ہوں، بچوں کے فٹ بال عالمی کپ کا انعقاد ہو گا۔ 2010 میں جنوبی افریقہ میں جو پہلا عالمی کپ ہوا اس میں پاکستان شرکت نہیں کر سکا تھا تاہم دوسرے عالمی کپ میں پاکستان پہلی بار شرکت کر رہا ہے۔

پاکستانی ٹیم میں شامل بچوں کے حوالے سے اطفان مقبول نے بتایا کہ اس کے لیے یہ کوشش کی گئی کہ قومی سطح کی ٹیم بھیجی جا سکے، ’’ہم نے مختلف جگہوں پر اپنا کیمپ لگایا تھا۔ ان میں سے ایک بچہ کوئٹہ سے چنا گیا ہے، باقی بچے کراچی سے ہیں۔ اس ٹیم میں کُل نو بچے ہیں۔ ایک ٹیم سات بچوں پر مشتمل ہو گی جبکہ دو بچے ریزرو میں رہیں گے۔ ان بچوں کا تعلق کراچی کے مختلف علاقوں سے ہے، جن میں ابراہیم حیدری، لیاری، ماڑی پور، نیو کراچی، کورنگی اور منگھوپیر شامل ہیں۔‘‘

Pakistan - Fußballtraining für Straßenkinder
28 مارچ سے شروع ہونے والے بچوں کے اس عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کے علاوہ 19 دیگر ممالک کے 230 بچے شرکت کر رہے ہیںتصویر: Getty Images

28 مارچ سے شروع ہونے والے بچوں کے اس عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کے علاوہ 19 دیگر ممالک کے 230 بچے شرکت کر رہے ہیں۔ گو یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان کے یہ اسٹریٹ چلڈرن عالمی سطح پر ایک بہت بڑے ایونٹ میں شرکت کر رہے ہیں تاہم اطفان مقبول کے مطابق خود کو منوانے کے لیے پُر جوش ان بچوں نے بہت محنت کی ہے اور یہ جیتنے کے لیے بھی پُر عزم ہیں، ’’ان بچوں نے تین ماہ کی تربیت لی اور آخر میں20 دن کی نہایت فزیکل ٹریننگ لی، جس میں ان کی فٹنس کے علاوہ ڈائٹ اور نیوٹریشن کا بہت دھیان رکھا گیا۔ امید ہے کہ یہ بچے کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کے لیے بہت سخت ثابت ہوں گے۔‘‘

آزاد فاؤڈیشن کے مطابق صرف کراچی کی ہی سڑکوں پر20 لاکھ سے زائد بچے بھٹک رہے ہیں، جن میں سے اکثر جرائم پیشہ گروہوں سے وابستہ ہو کر یا منشیات کی لت میں پڑ کے زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ ان بچوں کو اگر بہتر رہنمائی ملے تو یہ عالمی سطح ہر پاکستان کا نام رشن کر سکتے ہیں۔