1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زیرو کشش ثقل کینسر کے خلیات کو مار دیتی ہے

6 دسمبر 2019

ایک تجربے کے دوران کینسر کے خلیات کو ایک دن کے لیے زیرو کشش ثقل میں رکھا گیا، جس کے بعد اسی فیصد کینسر سیلز مر گئے۔ اب نئے تجربات خلاء میں کیے جائیں گے۔ قبل ازیں جرمن محقیقن نے بھی ایسے ہی نتائج حاصل کیے تھے۔

https://p.dw.com/p/3UJsg
Melanoma - Hautkrebs - Illustration der Krebszellen
تصویر: Imago/Science Photo Library/A. Pasieka

آسٹریلوی سائنسدان کینسر کے خلیات کو اب خلاء میں بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ زمین پر کشش ثقل کو ختم کرتے ہوئے جو تجربات کیے گئے ہیں، ان کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔ سڈنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں بائیو میڈیکل انجینئیرنگ ریسرچ کے شعبے سے وابستہ پروفیسر جوشو چاؤ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میرے اردگرد بہت سے لوگوں کو کینسر ہوا، تو میں نے اسی وقت ارادہ کر لیا تھا کہ میں سرطان کے خلیات پر تحقیق کروں گا۔‘‘

پروفیسر جوشو چاؤ کے مطابق وہ ایک طویل عرصے سے زیرو گریویٹی (صفر کشش ثقل) میں کینسر کے خلیات کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ قبل ازیں ان کی تحقیق خلاء میں ہڈیوں کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا، '' ابھی تک ایسی کوئی جادوئی دوا تیار نہیں کی جا سکی کہ جو کینسر کو ختم کر دے کیوں کہ کینسر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور ہر ایک شخص کا اس کے خلاف ردعمل مختلف ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا، ''لیکن جو میں اصل میں جاننا چاہتا ہوں، وہ یہ راز ہے کہ مختلف لوگوں کے کینسر کے خلیات میں مشترک کیا چیز ہے؟ اسی جستجو میں میں نے ان کا مائیکرو کشش ثقل ڈیوائس میں مشاہدہ کیا۔‘‘

مزید تحقیق خلاء میں ہو گی

پروفیسر جوشو چاؤ کی تحقیق کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس تحقیق کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''ہم نے جسم کے مختلف حصوں سے چار مختلف قسم کے کینسر (چھاتی، رحم مادر، پھیپھڑوں اور ناک) کے خلیات حاصل کیے تھے۔ پھر انہیں مائیکرو گریویٹی  والے ماحول میں رکھا گیا۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر کینسر کے اسی سے نوے فیصدخلیات مر چکے تھے۔‘‘

پروفیسر جوشو اپنی ٹیم کی کوششوں سے اب سن دو ہزار بیس میں کینسر کے خلیات بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر بھیجیں گے۔ ان کہنا تھا، ''خلاء میں ہمیں یہ پتا چلے گا کہ یہ خلیات صفر کشش ثقل میں مرتے ہیں یا کسی دوسری چیز کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔ مثال کے طور شمسی تابکاری کا اس میں کیا کردار ہے؟‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا تجربہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ان کے بقول صرف یہ ایک تجربہ کرنے کے لیے انہیں کئی طرح کی ٹیکنالوجی تیار کرنا پڑے گی، جو آسان کام نہیں ہے، ''سب سے مشکل مرحلہ ایسے خلیات کو زندہ رکھنا اور پھر انہیں خلاء سے واپس زمین پر لانا ہو گا۔‘‘ جرمنی میں یونیورسٹی آف ماگڈے برگ کی پروفیسر ڈانیئلا گرِم اس تحقیق کے حوالے سے بہت خوش ہیں۔ وہ بھی سن دو ہزار سترہ میں چھوٹے پیمانے پر  گلے کے کینسر پر ایسی ہی ایک تحقیق کر چکی ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ نئی تحقیق شاندار ہے، اس سے ہماری تحقیق کی تصدیق ہوتی ہے۔ اور آسٹریلوی سائنسدانوں نے تو کئی دیگر اقسام کے کینسر کے خلیات پر بھی تجربات کیے ہیں۔‘‘ 

سائنسدان یہ تحقیق بھی کر رہے ہیں کہ صفر کشش ثقل میں کون سی ادویات انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مائیکرو گریویٹی حالات پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

الیگزانڈر فرؤنڈ /  ا ا / ع ا