1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’زرداری کی موجودگی میں جوہری اثاثے محفوظ نہیں‘، شاہ محمود قریشی

29 نومبر 2011

سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں ملک کے جوہری اثاثے غیر محفوظ ہونے کے الزام نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت کے بارے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13Iub
شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی ہےتصویر: Abdul Sabooh

حال ہی میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے شاہ محمود قریشی نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی جب پاکستان میمو گیٹ اسکینڈل اور پھر قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے اپنے فوجیوں کی ہلاکت پر پہلے ہی اندرونی و بیرونی طور پر مشکلات کا شکار ہے۔ موجودہ حکومت میں تین سال تک وزیر خارجہ رہنے والے شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے ردعمل میں دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ صدر پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی سول و فوجی قیادت اور عوام اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کے لیے متحد ہیں۔ اس سے قبل امریکہ اور مغربی ممالک ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کے جوہری اثاثے القاعدہ یا طالبان شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان اس طرح کے خدشات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔

پاکستان کے جوہری پروگرام سے وابستہ رہنے والے معروف سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے اس طرح کے بیانات مناسب نہیں جو ملکی سلامتی پر اثر انداز ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو پاکستان کے جوہری اثاثے ہیں وہ پاکستانی فوج کے قبضے میں ہیں وہ ان کی حفاظت کرتی ہے۔ انہوں نے جب کبھی استعمال کرنے ہوں گے۔ (اللہ نہ کرے اس کی ضرورت محسوس ہو) ان کو معلوم ہے کہ حفاظت کیسے کرنی ہے۔ وہ کسی اور ادارے ، کسی شخص یا نظام کے کنٹرول میں نہیں اور پاکستان کی مسلح افواج نے جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول کا بہت اچھا نظام قائم کر رکھا ہے‘‘۔

حکومت نے اٹھارویں ترمیم میں جوہری اثاثوں سے متعلق فیصلے کا اختیار صدر سے لے کر وزیراعظم کی سربراہی میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے حوالے کر دیا تھا۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی میں وزیر دفاع، خارجہ، داخلہ، خزانہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہ شامل ہیں۔

Pakistan Konferenz Brüssel
شاہ محمود قریشی نے اس طرح کا الزام اس وقت کیوں نہ لگایا جب وہ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے،رفعت حسینتصویر: AP

نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے زیر انتظام اسٹریٹجک پلان ڈویژن جوہری ہتھیاروں کی براہ راست حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت کو امریکہ اور مغربی دنیا نے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوجی اور سول حکومت کو جوہری ہتھیاروں کی حساسیت اور اہمیت کا پوری طرح اندازہ ہے۔ اسی لیے ان کی حفاظت کے لیے کسی قسم کا رسک کوئی بھی حکومت نہیں لے سکتی۔ انہوں نے کہا ’’ ڈاکٹر اے کیو خان کے کیس کے علاوہ کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا، جس میں کسی پالیسی کے بغیر کسی ارادے کے اور بغیر اتفاق رائے کے کسی نے جوہری مواد اٹھا کر، چوری کر کے یا جیب میں ڈال کر باہر لے گیا ہو اور کسی کو دے دیا ہو۔ تو میرا خیال ہے کہ اس بارے میں تحفظات بے بنیاد ہیں‘‘۔

اس ماہ کے آغاز میں جوہری اثاثوں کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے اسٹریٹجک پلان ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل سکیورٹی میجر جنرل محمد طاہر نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے مزید 8 ہزار اہلکاروں کو بین الاقوامی معیار کی تربیت فراہم کرے گی۔

قائد اعظم یونیورسٹی میں ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ کسی بھی فرد یا ادارے کو بغیر ثبوت کے جوہری معاملات سے متعلق کسی بھی طرح کی غیر ذمہ دارانہ بات سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اگر بیرونی دنیا پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت پر کوئی شک کرتی ہے تو اپنے ہی لوگ سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اس طرح کے بیانات دیتے ہیں، جن سے بیرونی دنیا کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے اس طرح کا الزام اس وقت کیوں نہ لگایا جب وہ اسی حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے۔

رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عدنان اسحاق