1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریکارڈ شکن دبئی ٹیسٹ، پاکستان نےکایا کیسے پلٹی

طارق سعید، دبئی27 اکتوبر 2014

پاکستان کی دبئی ٹیسٹ میں دو سو اکیس رنز سے کامیابی آسٹریلیا کے خلاف تاریخ میں رنز کے اعتبار سے سب سے بڑی فتح ہے۔ پاکستانی کپتان مصباح الحق کے مطابق بڑے نام نہ ہونے کے باوجود کامیابی نے ٹیم کے قدم چومے۔

https://p.dw.com/p/1DcXw
تصویر: Getty Images/Ryan Pierse

اس ٹیسٹ میچ کے بعد دبئی ڈی ڈبلیو اردو کے نمائندے طارق سعید سے ایک خصوصی گفتگو میں پاکستانی کپتان مصباح الحق کا کہنا تھا کہ میچ میں تمام کھلاڑیوں کے اپنے اپنے حصہ کا کردار نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔

مصباح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ دباؤ میں تھے مگر کرکٹ بورڈ کے بڑوں کی حوصلہ افزائی نے کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔ اور اسی سے ٹیم کا حوصلہ بلند ہوا۔ مصباح نے میچ میں غیر روایتی انداز اپناتے ہوئے جارحانہ کپتانی کی اور زیادہ تر پاکستانی فیڈلرز ہمہ وقت آسٹریلوی بیٹسمینوں کے سر پر منڈلاتے رہے۔ مصباح نے بتایا کہ اب ان کی اور ٹیم کی سوچ کھیل کے متعلق تبدیل ہوگئی ہے۔

دبئی ٹیسٹ یونس خان کی دونوں اننگز میں سینچریوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ چالیس سال بعد آسٹریلیا کے خلاف یہ کارنامہ انجام دینے والے دنیا کے پہلے بیٹسمین بنے۔

ون ڈے ٹیم سے نظر انداز کیے جانے پر یونس خان اس سیریز سے پہلے سخت چراغ پا تھے ۔ مگرآسٹریلیا کے خلاف اپنے چودہ سالہ کیریر میں پہلی ٹیسٹ سینچری کا سپنا انہیں خلیج لے آیا اور دبئی ٹیسٹ میں انضمام کی سب سے زیادہ پچیس پاکستانی سینچریوں کا ریکارڈ بھی خان کے ہاتھوں پاش پاش ہوگیا۔ یونس نے یہ کارنامہ انضمام سے اتھائیس ٹیسٹ کم کھیل کر انجام دیا ہے۔

Younis Khan Cricketspieler
یونس خان نے اس ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں اسکور کیںتصویر: AP

اس اعلیٰ کارکردگی کے بارے میں ریکارڈ شکن یونس خان کا کہنا تھا۔ انہوں حالیہ سلیکشن تنازعہ سے قطع نظر اپنی تمام توجہ کھیل پر مرکوز رکھی اور کارکردگی اسی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سینچری نہ بنانے پر انہیں ماضی میں جلی کٹی بھی سننا پڑیں مگر اب وہ سرخرو ہو چکے ہیں۔

آسٹریلیا کے اسپنرز اس میچ میں صرف سات وکٹ لے سکے اور مہمان ٹیم کو ان کی ہر وکٹ کی قمیت ستر رنز چکانا پڑی۔ اس کے مقابلے پاکستانی اسپنرز نے پندرہ کھلاڑیوں کا پتہ سستے میں صاف کیا۔ یاسر شاہ اور ذولفقار بابر نے تباہ کن باولنگ کرتے سات سات وکٹیں حاصل کیں۔ ذوالفقار بابر نے میچ اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں آسٹریلیا کی اسپن باؤلنگ کی کمزوریوں کا اندازہ تھا۔ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے ویڈیو دیکھ کر میری باؤلنگ کو سمجھنےکی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔

پینتیس سالہ ذوالفقار بابر کا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور انہیں بین الاقوامی کرکٹ میں یہ دن دیکھنے کے لیے تیرہ سال تک صبر آزما انتظارکرنا پڑا۔ ذوالفقار کہتے ہیں کہ میں کبھی بد دل نہیں ہوا کیوں کہ پہلے سعید اجمل کھیل رہے تھے جو ایک ورلڈ کلاس بولر تھے اور اب سلیکٹرز نے موقع دیا، جس پر وہ مسرور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری اب بھی خواہش ہے کہ اجمل کا ایکشن کلیر ہو اور وہ ٹیم میں واپس آئیں۔

پہلا میچ کھیلنے والے یاسر شاہ نے ایک سو سولہ رنز دیکر سات وکٹیں لیں جو کسی پاکستانی لیگ اسپنر کی ڈیبو پر بہترین کارکردگی ہے۔

ستائیس سالہ سرفراز احمد نے بھی مسلسل دوسری ٹیسٹ سینچری اسکور کی۔ 80 گیندوں میں یہ کارنامہ انجام دے کر وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی دوسری تیز ترین سینچری بنانے والے وکٹ کیپر بن گئے۔ سرفراز احمد ابتدائی تیس انٹرنینشل میچوں میں کوئی نصف سینچری تک نہ بنا سکے تھے مگر رواں برس انہوں نے دو مسلسل دو ٹیسٹ سینچریاں بنائی ہیں۔ سرفراز احمد کے بقول پہلے جب انہیں مواقع ملے تو ہمیشہ ٹیم سے باہر رہنے کا خوف سر پر سوار ہوتا تھا۔ اب ایسا نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھل کر کھیل رہے ہیں۔

دونوں ٹیمیں اب تیس اکتوبر سے ابوظہبی میں سیریز کے دوسرے اور آخری ٹیسٹ میں صف آرا ہوں گی۔ اس میچ میں بھی پاکستان کی امیدیں اسپنرز سے وابستہ ہیں۔ ذوالفقار بابر کا کہنا تھاکہ اگر ابوظہبی کی پچ اسپن کے لیے سزاگار ہوئی تو وہاں بھی اپنی دھاک بٹھائیں گے۔

آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کلین سویپ کی صورت میں پاکستان آئی سی سی کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر آجائے گا۔