1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریبیز خطرناک ہے، بہت احتیاط کریں

2 اکتوبر 2023

ریبیز کا منفی پہلو یہ ہے کہ ایک دفعہ جب وائرس نسوں کے ذریعے برین تک سرایت کر گیا اور کسی انسان میں اس کی علامات ظاہر ہو گئیں پھر نتیجتاً موت لاحق ہو سکتی ہے۔ اس لیے آگاہی ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/4X334
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

ریبیز کے عالمی دن کا مقصد ریبیز سے بچاؤ، انسانوں اور جانوروں پر اس کے اثرات، روک تھام کے بارے میں شعور پیدا کرنے اور اس خوفناک بیماری کو شکست دینے کے لیے احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ عوام میں ریبیز سے متعلق آگاہی سے زیادہ خوف وہراس پایا جاتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ناف میں 14 ٹیکے لگتے ہیں۔ یہ پرانا طریقہ ہے اب جدید علاج ہے۔

کتے چمگادڑ، بندر، بھیڑیے، لومڑی عموماً ریبیز پھیلانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں آوارہ کتے لوگوں کو اس وائرس سے متاثر کرنے کا سب سے زیادہ امکان رکھتے ہیں۔

ریبیز کی ویکسین مرض کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں۔ یہ وائرس مرکزی اعصابی نظام کو ہٹ کرتا ہے۔ ایک بار کلینیکل علامات جب ظاہر ہو جائیں تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے علامات ظاہر ہونے کے بعد اس کے تدارک کے لیے ویکسین لگوائی اور وہ صحت یاب ہوئے ہوں۔

اس لیے پہلی ویکسین جانور کے کاٹنے کے بعد جلد از جلد مریض کو لگ جانا چاہیے۔ ویکسین کی مقدار کا تعین ڈاکٹر طبی معائنے کے بعد مریض کی عمر، جنس، وزن اور چوٹوں کے آس پاس کے حالات  کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے۔ ڈاکٹر ہی فیصلہ کرے گا کہ آپ کو ریبیز تھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں۔ احتیاطی طور پر بہتر ہو گا کہ ویکسین کسی مستند ادارے سے لگوائی جائے۔ کچھ افراد متاثرہ حصوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں یا فرسٹ ایڈ کے طور پر زخم پر تیل اور ہلدی لگا لیتے۔ ایسا کرنے سے معالج کی مشکلات میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ انفیکشن کے بڑھ جانے کے امکانات کئی گنا زیادہ ہو جاتے ہیں۔

ریبیز ہر کتے کے کاٹنے سے نہیں پھیلتی ایسے مریض جنہیں کتے کے کاٹنے سے معمولی خراشیں آئیں، خون بھی بہت کم نکلا تو ایسے مریضوں کو بس ابتدائی امداد دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایسے مریض جنہیں کتے نے بےدردی سے کاٹا ہو اور کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوا ہو انہیں دیکھ کر دفعتاً یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ریبیز کا شکار ہیں۔

ریبیز کی ابتدائی علامات میں بخار کا ہونا، متاثرہ جگہ پر سنساہٹ سی محسوس ہونا، متلی، اشتعال انگیز طرز عمل، کوآرڈینیشن کی کمی، ہائیڈروفوبیا ( پانی کا خوف) ایروفوبیا (تازہ ہوا کا خوف) پیدا ہوتا ہے۔

باؤلے کتوں کے حوالے سے لوگوں کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ریبیز صرف آوارہ کتوں سے پھیلتی ہے۔ ویٹنری اسپیشلسٹ کے مطابق  80 فیصد سٹریٹ ڈاگ جبکہ 20 فیصد ڈومیسٹک ڈاگ ریبیز کے پھیلاؤ میں ملوث ہوتے ہیں۔ پالتو کتے جب تک کہ وہ ویکسین کے عمل سے نہ گزرے ہوں وبال جان بن سکتے ہیں۔

ریبیز سے متاثر ہو جانے کے بعد کتے کی عمر عموماً چھے سے سات دن ہوتی ہے لیکن اس دوران وہ نہ صرف اس مرض کو پھیلا چکا ہوتا ہے بلکہ انسانوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔ جب دیکھیں کہ آپ کا پالتو کتا پانی نہیں پی رہا، کچھ نہیں کھا رہا، سر مختلف طریقوں سے ہلا ہلا کر عجیب حرکتیں کر رہا ہے، کچھ خیالی اشیاء پکڑنے کے لیے زمین میں کھدائی کر رہا ہےتو پھر محسوس کر لینا چاہیے کہ وہ خطرناک ہو چکا ہے۔

پہلے تو دور دراز کے علاقوں سے مریض رپورٹ ہوتے تھے مگر اب کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان جیسے گنجان آباد شہروں سے بھی مریض آ رہے ہیں۔ یہ مریض بتاتے ہیں کہ ان کے گلی محلوں میں آوارہ کتوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ کتے ٹولیوں کی صورت میں کچرے کے ڈھیر پر خوارک کے حصول کے لیے آتے ہیں، کچرے کے شاپر پھاڑتے ہیں اور اگر کوئی ان کے قریب سے بھی گزر جائے تو اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ خواتین، بچے اور بزرگ دہشت کے باعث گھروں سے کم نکلتے ہیں۔ ایسی اضطرابی کیفیت میں مقامی لوگ کتوں کو مار ڈالنے کی صلاح دیتے ہیں۔

کتوں کو گولیاں مار کر یا زہریلے ٹیکے لگا کر تلف کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ یہ تو بے رحمانہ اقدام ہے لیکن کتے انسان بھی نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں آوارہ کتوں کی ویکسین اور ان کی تولیدی صلاحیت ختم کر کے ریبیز وائرس پر قابو پایا گیا ہے۔ پاکستان میں تاحال کوئی سینٹرل پالیسی واضح نہیں کی جاسکی جو کتوں کی نس بندی پر عمل درآمد کروا سکے کیونکہ عام پالیسیز سیاست کے زیر اثر چلی جاتی ہیں۔

فارماسسٹ ایسوسی ایشن سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دوا ساز اداروں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اتنی حساس ویکسین بڑے پیمانے پر تیار کر سکیں۔ لہذا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ خام مال چین سے لے کر اسے ری فل کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی قسم کی ویکسین یا بائیو ٹیکنیکل پروڈکٹ نہیں بنتی۔ نتیجتاً موجودہ ویکسین کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ مہنگی ہیں اور متعدد خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ غربت یا اپنی ذمہ داریوں میں مشغول ہو کر متاثر شخص کو ویکسین لگوانے میں تاخیر کر دیتے ہیں یا لواحقین کی جانب سے اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جس کے باعث ریبیز ڈیتھ ریٹ بڑھ رہا ہے۔