روہنگیا مہاجر، چار دہائیوں بعد بھی پناہ گزین
18 اکتوبر 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فضل احمد اب بنگلہ دیش میں ایک خیمہ بستی میں اپنی بیوی کے ہمراہ مقیم ہے۔ رواں برس اگست کے آخر میں میانمار میں سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد سے لاکھوں روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور فضل احمد بھی اس دوران ہجرت کرنے والے افراد میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ میانمار کی فوج کی جانب سے جاری اس آپریشن کو ’’نسل کشی‘‘ کے مترادف قرار دے چکی ہے۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، ہیومن رائٹس واچ
روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر طالبان کی میانمار کو دھمکی
میانمار میں نسلی تنازعے کی وجوہات، ایک جائزہ
دیگر مہاجرین کے برعکس فضل احمد ان مہاجر بستیوں کو پہلے ہی سے جانتا ہے۔ سن 1978ء میں میانمار کی راکھین ریاست میں مسلم اقلیت کے خلاف حملوں کے تناظر میں اس کا خاندان ہجرت کر کے بھارت آیا تھا اور اس وقت فضل احمد ایک بچہ تھا۔
اپنی پرانی یادیں بانٹتے ہوئے فضل احمد کا کہنا ہے، ’’جب ہم سے مزید نہ رہا گیا اور روہنگیا کسانوں کے خلاف بدھ بھکشوؤں کے حملے تیز تر ہو گئے، تو ہمیں اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا تھا۔‘‘ فضل نے مزید بتایا، ’’وہ لوگ نوجوانوں کو اغوا کر رہے تھے اور تاوان کی رقم مانگتے تھے۔‘‘ فضل کے مطابق اب کی اس کی عمر اکتالیس برس ہے، تاہم اس کی سفید داڑھی اور اس کی یاداشتیں بتاتی ہیں کہ اس کی عمر اس سے کہیں زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش میں اس وقت قریب ایک ملین روہنگیا مہاجرین موجود ہیں، جن میں بڑی اکثریت ان کی ہے، جو حالیہ دو ماہ میں یہاں پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان مہاجرین کو خوراک، پینے کے پانی، نکاسی آب اور طبی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔
ڈھاکا حکومت واضح کر چکی ہے کہ ان تمام مہاجرین کو ہر حال میں میانمار بھیجا جائے گا اور اس مقصد کے لیے ڈھاکا اور ینگون حکومتیں بات چیت میں بھی مصروف ہیں۔ مگر فضل احمد کے مطابق یہ بات چیت آسان نہیں ہو گی کیوں کہ میانمار میں انہیں مقامی باشندہ سمجھنے کی بجائے بنگلہ دیشی مہاجر قرار دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف معاشرتی سطح پر نفرت کا رویہ عمومی بات ہے۔