1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روما باشندوں کا نسل پرستانہ قتل، ملزمان کو سزا

ارسلان خالد6 اگست 2013

ہنگری کی ایک عدالت نے چار افراد کو نسلی تعصب کی بنیاد پر روما نسل کے باشندوں کو قتل کرنے سے متعلق ایک مقدمے میں سزا سنائی ہے۔

https://p.dw.com/p/19KnX
تصویر: picture-alliance/dpa

ہنگری کی ایک عدالت نے تین افراد ارپاد کس، استوان کس اور زولٹ پیٹو کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جب کہ ایک شخص استوان کونوٹس کو 13 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ استغاثہ کے بقول ان افراد نے 2008 اور 2009 کے دوران متعدد بار روما نسل کے باشندوں پر حملے کیے تھے، ان پر فائرنگ کی تھی اور ان کے گھروں پر آتش گیر مادے سے حملے کیے تھے۔

فیصلے کے وقت لوگ بڑی تعداد میں عدالت کے باہر موجود تھے
فیصلے کے وقت لوگ بڑی تعداد میں عدالت کے باہر موجود تھےتصویر: Attila Kisbenedek/AFP/Getty Images

ایک سال تک جاری رہنے والے فسادات میں روما نسل سے تعلق رکھنے والے 6 افراد مارے گئے تھے جب کہ 5 شدید زخمی ہوئے تھے۔ ہنگری 10 ملین آبادی کا ملک ہے جن میں صرف 5 سے 8 فیصد لوگوں کا تعلق روما نسل سے ہے۔ 2008 اور 2009 کے دوران روما نسل کے لوگوں پر کل 9 حملے کیے گئے جن میں سب سے بھیانک حملہ ایک باپ اور اس کے پانچ سالہ بیٹے پر ہوا جس میں پہلے ان کے گھر کو نظر آتش کیا گیا اور جب وہ بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے تو انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ایک اور واقعے میں ایک خاتون کو اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ سو رہی تھیں۔

منگل کو جب اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا تو بڑی تعداد میں لوگ عدالت کے باہر موجود تھے جنہوں نے ٹی شرٹس پہن رکھیں تھیں جن پر لکھا ہوا تھا ’’ان لوگوں کا جرم ان کی رنگت تھا‘‘۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ چاروں افراد ڈیبرسین فٹ بال کلب کے مداح ہیں جس کے ’’نیو نازیوں‘‘ کے ساتھ روابط ہیں اور یہ اشخاص ماضی میں روما نسل کے لوگوں کے ساتھ الجھتے رہیں ہیں۔ ان لوگوں نے روما نسل کے لوگوں پر حملے کا منصوبہ ایک شراب خانے میں بنایا تھا۔

روما نسل کے لوگ ہنگری میں غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ رواں سال جنوری میں ہنگری کے ایک مشہور صحافی نے روما نسل کے افراد کے لیے نفرت انگیز الفاظ استمعال کرتے ہوئے انہیں ’’جانور‘‘ کہا تھا اور یہ بھی کہ انہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر اس صحافی کا یہ بیان چھاپنے پر اخبار کو جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔

جن افراد کو سزا سنائی گئی ہے ان کی عمریں 28 سے 42 سال کے درمیان ہیں اور توقع ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔