روسی، یوکرائنی، جرمن اور فرانسیسی رہنماؤں کی ملاقات
2 اکتوبر 2015جمعے کے روز پیرس میں ہوئی اس سمٹ کا خاصے عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا تاکہ مشرقی یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرائنی فورسز کے درمیان جاری لڑائی کا خاتمہ ممکن ہو، تاہم اس اجلاس میں شام میں روسی فوجی مداخلت کا معاملہ چھایا رہا۔
رواں ہفتے روسی پارلیمان کی جانب سے منظوری کے بعد روسی لڑاکا طیاروں نے شام میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا، جو آج جمعے کے روز بھی جاری رہے۔
ایک اعلیٰ فرانسیسی سفارتی عہدیدار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ بات چیت میں اس اجلاس میں مشرقی یوکرائن میں قیام امن کے معاملے میں پیش رفت کے حوالے سے محتاط انداز میں امید کا اظہار کیا۔ بتایا گیا ہےکہ اس اجلاس میں مشرقی یوکرائن میں مزید علاقائی خود مختاری، یوکرائن میں آئندہ انتخابات، علیحدگی پسندوں کے لیے عام معافی، جنگی علاقے سے ہتھیار ہٹانے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے جیسے معاملات پر بات چیت کی گئی۔
رواں برس فروری میں منسک معاہدے کے طے پانے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ روس، فرانس، جرمنی اور یوکرائن کے رہنما آپس میں ملے۔
منسک معاہدہ علیحدگی پسندوں اور کییف حکومت کے دستوں کے درمیان وقفے وقفے سے لڑائی کی وجہ سے مسائل کا شکار رہا ہے، تاہم حالیہ کچھ ہفتوں میں اس معاہدے کے حوالے سے خاصی پیش رفت دکھائی دی ہے اور فریقین نے علاقے سے ٹینکوں سمیت بھاری ہتھیار نکال لیے ہیں۔
حکومتی فورسز اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان اپریل 2014 سے جاری اس لڑائی میں اب تک تقریباﹰ آٹھ ہزار افراد ہلاک اور قریب دو ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔
یوکرائن کو امید ہے کہ مشرقی ڈونبس کے علاقے کے حوالے سے پیش رفت ہو گی، جب کہ علاقائی انتخابات کی تاریخ پر بھی بات چیت آگے بڑھے گی۔ مشرقی یوکرائن میں علاقائی انتخابات کے لیے کییف حکومت نے 25 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم باغیوں کی جانب سے بھی علاقائی انتخابات کے اعلان میں تجویز دی گئی ہے کہ یہ 18 اکتوبر یا یکم نومبر کو کرائے جائیں گے۔
اجلاس میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے حالیہ ہفتوں میں مشرقی یوکرائن میں مِنسک امن معاہدے کے حوالے سے پیش رفت کا خیرمقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پیش رفت جاری رہی تو ’میں ماسکو کے خلاف عائد پابندیوں کے خاتمے پر بات کروں گا‘۔
یہ بات اہم ہے کہ روس کے خلاف یورپی پابندیوں اور جواب میں روسی پابندیوں کی وجہ سے متعدد یورپی کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔
مشرقی یوکرائن میں فائربندی کے جائزہ لینے والے بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ چند ماہ میں فریقین نے اگلے مورچوں سے بھارتی ہتھیار ہٹا دیے ہیں۔ فروری میں منسک امن معاہدے میں یہی طے پایا تھا۔