1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی فوجی تربیتی گراؤنڈ پر حملہ کم از کم 11 ہلاکتیں

16 اکتوبر 2022

روسی وزارت دفاع کے مطابق ہفتے کے روز روسی فوجی تربیتی گراؤنڈ پر ایک حملے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور15 دیگر زخمی ہوئے۔ حملہ یوکرین پر روسی قبضے کے بعد سے اب تک روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو لگنے والا تازہ ترین دھچکہ تھا۔

https://p.dw.com/p/4IFhf
Symbolbild Russland Teilmobilisierungsschulung
تصویر: Kirill Braga/SNA/IMAGO

نیوز ایجنسی آر آئی اے کے مطابق یوکرین کی سرحد سے متصل روس کے جنوب مغربی علاقے بیلگوروڈ میں دو رضاکار فوجیوں نے فوجی تربیتی میدان میں فائرنگ کی۔ روس کی وزارت دفاع نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ دونوں فوجیوں کا تعلق آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ سے تھا۔ یہ ایک علاقائی بین الحکومتی تنظیم ہے۔ 1991ء میں قائم کی گئی اس تنظیم میں ایسے نو ممالک شامل ہیں جو سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھے۔ ان مین آرمینیا، آذربائیجان، بیلاروس، قزاقستان، کرغزستان، مالدووا، روس، تاجکستان اور ازبکستان۔ روس کا کہنا ہے کہ21 ستمبر کو ریزرو فورس کو جزوی طور پر متحرک کرنے کے اعلان کے بعد سے اس نے دو لاکھ  سے زیادہ افراد کو بھرتی کیا ہے۔

روسی فوج، اصل سے کہیں زیادہ بڑی سمجھی جانے والی طاقت

'خوفناک واقعہ‘

چند آزاد ذرائع ابلاغ نے ہفتے کو ہوئے اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ بتائی ہے۔ روس کے جنوب مغربی علاقے بیلگوروڈ، جو  روسی ملٹری یونٹس کے اڈوں میں سے ایک ہے، کے گورنر یاخسلوف گلاڈکوف نے اتوار کی صبح سویرے ایک بیان میں کہا، ''ہماری سرزمین پر ایک خوفناک واقعہ پیش آیا ہے۔‘‘ روس کے جنوب مغربی علاقے بیلگوروڈ  نے ٹیلی گرام میسیجنگ ایپ پر ایک ویڈیو پوسٹ میں مزید کہا، ''بہت سے فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں تاہم بیلگوروڈ کا کوئی رہائشی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا ہے۔‘‘

فوج میں جبری بھرتی سے خوفزدہ روسی شہری فرار ہونے لگے

Ukraine Krieg | Beschuss auf das Gebäude der Stadtverwaltung Donetsks
ڈونیٹسک کے ایک سرکاری دفتر کی عمارت بمباری سے تباہتصویر: Sergey Averin/SNA/IMAGO

یہ حملہ کریمیا کے علاقے میں قائم ایک پُل کی تباہی کے ایک ہفتے بعد کیا گیا۔ یاد رہے کہ یوکرینی جزیرہ نما کریمیا کو 2014 ء میں روس میں ضم کر لیا گیا تھا۔ اس سے قبل روس یوکرین جنگ کے دوران بحیرہ اسود میں روس کا فلیگ شپ بھی اڑا دیا گیا تھا جو بعد ازاں ڈوب گیا تھا۔ روسی وزارت دفاع کے حوالے سے خبر رساں ابجنسی RIA کے حوالے سے رپورٹ میں مزید کہا گیا، ''آتشیں اسلحہ کے تربیتی سیشن کے دوران، جس میں شریک ہونے کی خواہش  رضاکاروں نے خود ظاہر کی تھی، دہشت گردوں نے یونٹ کے اہلکاروں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔‘‘سات دن میں چھیاسٹھ ہزار روسی شہری یورپی یونین میں داخل

حملہ آور کون تھے؟

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ایک مشیر اولیکسی ایرسٹووچ نے یوٹیوب کے ایک انٹرویو میں کہا کہ حملہ آوروں کا تعلق وسطی ایشیائی ملک تاجکستان سے تھا اور انہوں نے مذہب پر جھگڑا ہونے کے بعد دوسروں پر فائرنگ شروع کر دی ۔

تاجکستان ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے جکہ روس کی قریب نصف آبادی مسیحیت کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھتی  ہے۔

’پوٹن نے اعلان تو کر دیا لیکن نئے روسی فوجی آئیں گے کہاں سے‘

اُدھر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ہفتے کو کہا تھا کہ روس کے مسلسل حملے اور ڈونباس کے بڑے علاقے میں صورتحال بہت مشکل ہونے کے باوجود یوکرینی فوجیوں نے اب بھی اسٹریٹیجک اعتبار سے نہایت اہم مشرقی قصبے باخموٹ کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور وہ وہاں موجود ہیں۔

ک م/ ا ب ا( روئٹرز)