1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس کو عالمی سطح پر تنہا نہیں کیا جا سکتا، صدر پوٹن

13 اپریل 2022

صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ روس کو دنیا سے الگ تھلگ نہیں کیا جا سکتا اور آج کی دنیا میں کسی ملک کو تنہا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ انہوں نے یوکرینی قصبے بوچہ میں نسل کُشی کا الزام بھی مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/49tMS
Russland Präsident Putin
تصویر: Mikhail Klimentyev/SNA/IMAGO

  روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا ملک میں منائے جانے والے 'اسپیس ڈے‘ کے موقع پر کہنا تھا، '' ہم تنہا نہیں ہو سکتے، آج کی دنیا میں کسی ملک کو تنہا کرنا انتہائی مشکل ہے، خصوصاﹰ روس جیسے ملک کو۔‘‘ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد پہلی بار روسی صدر نے عوام سے جنگ کے متعلق خطاب کیا۔ صدر پوٹن نے اپنے خطاب میں روسی عوام سے عہد کیا کہ روس یوکرین میں اپنے تمام ''عظیم مقاصد‘‘ حاصل کرے گا۔ صدر پوٹن نے ماسکو کے مشرق میں واقع  ووسٹوچنی کاسمو ڈروم کے مقام پر اپنے خطاب میں کہا، ''ہم یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں ایک بار پھر بند گلی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے اس خطاب میں یوکرین کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔

صدر پوٹن نے کہا کہ کییف نے روس کے جنگی جرائم کے جھوٹے دعوے اور پورے یوکرین کا احاطہ کرنے کے لیے حفاظتی ضمانتوں کا مطالبہ کر کے امن مذاکرات کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا روس یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ صدر پوٹن کا کہنا تھا، ''یقیناﹰ، اس بات میں شک کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔‘‘

روسی قوم کے مستقبل کے لیے فوجی کارروائی شروع کی ہے، پوٹن

ان  کا کہنا تھا کہ روس منظم طریقے سے  اپنی کارروائی جاری رکھے گا تاہم اس جنگ کا سب سے اہم مقصد، جو کہ یک قطبی بین الاقوامی نظام، جسے امریکہ نے سرد جنگ کے بعد بنایا تھا، ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کے پاس لڑائی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ مشرقی یوکرین کے روسی زبان بولنے والوں کا دفاع کرنا اور روس کے سابق سوویت پڑوسی کو ماسکو کے دشمنوں کے لیے روس مخالف سپرنگ بورڈ بننے سے روکنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہو گیا تھا۔

دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ 2014ء میں پوٹن کی طرف سے کریمییا کے الحاق کے بعد اور 21 فروری کو اپنے دو علیحدگی پسند علاقوں کو خودمختار تسلیم کرنے کے بعد اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔

 'بوچہ میں نسل کشی کا الزام جھوٹ پر مبنی ہے‘

صدر پوٹن نے اپنے اس خطاب میں یوکرین اور مغربی ممالک کی جانب سے یوکرینی قصبے بوچہ میں نسل کشی کا الزام بھی مسترد کر دیا۔ جب سے روس نے اپنی فوج کییف کے شہروں اور قصبوں سے واپس بلا لی ہے، تب ہی سے یوکرینی افواج صحافیوں کو لاشیں، تباہ شدہ مکان اور جلی ہوئی گاڑیاں دکھا کر یہ دعوی کر رہی ہیں کہ یہ سب روسی افواج کا کیا دھرا ہے۔

مختلف خبر رساں اداروں کے نمائندوں نے بوچہ میں لاشیں دیکھی ہیں لیکن کوئی بھی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے کہ یہ روسی افواج کی جانب سے ہوا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر پوٹن پر 'نسل کشی‘ اور جنگی جرائم کا الزام عائد کیا ہے۔

صدرپوٹن نے کہا، ''کیا آپ نے شام کے شہر دیکھے ہیں، جنہیں امریکی طیاروں کے حملوں نے  ملبے میں تبدیل کر دیا اور لاشیں کئی ماہ تک ان کھنڈرات میں سڑتی رہیں؟ کسی کو پروا نہیں تھی نا کسی نے اس بات کو محسوس کیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جب شام میں اشتعال انگیزی کا ڈرامہ رچایا گیا اور اور اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا، تب بھی دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور پھر انکشاف ہوا کے وہ سب جعلی تھا۔ ان کا کہنا تھا، ''بوچہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔‘‘

صدر پوٹن روس اور یوکرین کے عوام کو ایک ہی قرار دیتے ہیں اور اس جنگ کو امریکہ کے ساتھ ایک ناگزیر تصادم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ امریکہ روس کے ہمسایہ ملک میں ماسکو کے لیے خطرات کھڑے کر رہا ہے۔

ر ب / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)