1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایران

روس، ایران کے مابین بین الاقوامی تجارتی راہداری کا معاہدہ

21 مئی 2023

اس راہداری کا مقصد بھارت، ایران، روس، آذربائیجان اور دیگر ممالک کو ریلوے اور سمندری راستوں سے جوڑنا ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ یہ راہداری ایک بڑے تجارتی راستے کے طور پر نہر سوئز کا مقابلہ کر سکے گی۔

https://p.dw.com/p/4RViQ
Usbekistan Samarkand |  Ebrahim Raisi und Wladimir Putin
تصویر: Alexandr Demyanchuk/AP/picture alliance

روس ایک زیر تعمیر بین الاقوامی ٹرانسپورٹ راہداری کے تحت ریلوے لائن بچھانے کے لیےایران کو مالی اعانت فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ایک دوطرفہ معاہدے پر دستخطوں کی تقریب کی نگرانی کی۔ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور کہلانے والے اس منصوبے میں رشت-استارا ریلوے ایک اہم لنک ہے، جس کا مقصد بھارت، ایران، روس، آذربائیجان اور دیگر ممالک کو ریلوے اور سمندری راستوں کے ذریعے جوڑنا ہے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے، جس کے بارے میں روس کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑے عالمی تجارتی راستے کے طور پر نہر سوئز کا مقابلہ کر سکے گا۔

Russland Moskau | Wladimir Putin - Unterzeichnung für Zugstrecke mit Ebrahim Raisi
ولادیمیر پوٹن اور ابراہیم رئیسی نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ایک دوطرفہ معاہدے پر دستخطوں کی تقریب کی نگرانی کیتصویر: Mikhail Klimentyev/AP/picture alliance

اس حوالے سے روسی صدر پوٹن نے کہا، ''منفرد شمال-جنوب نقل و حمل کی شریان، جس کا رشت-استارا ریلوے ایک حصہ بن جائے گی، عالمی ٹریفک کے بہاؤ کو نمایاں طور پر متنوع بنانے میں مدد کرے گی۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بحیرہ کیسپین کے ساحل کے ساتھ ساتھ 162 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بحیرہ بالٹک کی روسی بندرگاہوں کو بحر ہند اور خلیج میں ایرانی بندرگاہوں سے جوڑنے میں مدد دے گی۔

اس موقع پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا، ''بلا شبہ یہ معاہدہ تہران اور ماسکو کے درمیان تعاون کی سمت ایک اہم اور اسٹریٹیجک قدم ہے۔‘‘

روس اور ایران  دونوں پر عائد مغربی اقتصادی پابندیوں نے انہیں اپنے باہمی سیاسی اور اقتصادی تعلقات مضبوط کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ دونوں ممالک اپنے اپنے طور پر ان پابندیوں کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔ سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں مسلسل کشیدگی اور تہران پر عائد  بے شمار پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت مفلوج ہے۔ ایران کے پاس مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کا ایک چوتھائی حصہ موجود ہے۔

مغربی دنیا نے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے بھی تہران کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جبکہ  روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے  ماسکو کو بھی اپنے خلاف مغربی دنیا کی بھرپور پابندیوں کا سامنا ہے۔

ش ر ⁄  م م (روئٹرز)

نیٹو فورسز کی مشترکہ فوجی مشقیں