1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روایتی اسلحے کی تجارت، عالمی معاہدہ نہ ہو سکا

29 مارچ 2013

ایران، شام اور شمالی کوریا نے اپنی نوعیت کی ایسی پہلی بین الاقوامی ٹریٹی کو نامنظور کر دیا ، جس میں روایتی اسلحے کی تجارت کے لیے قواعد وضع کیے گئے ہیں۔ ان ممالک کے بقول اس ٹریٹی سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/186fa
تصویر: JOE KLAMAR/AFP/Getty Images

روایتی اسلحے کی عالمگیر تجارت کا سالانہ ججم 70 بلین امریکی ڈالر سے زائد بتایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ اس تجارت کو مناسب طریقے سے ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک باضابطہ طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر میں گزشتہ دس دنوں سے اس بارے میں مذاکرات جاری تھے۔ اس ٹریٹی کو متعارف کرانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت سے قبل اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہتھیار کسی دہشت گردی کی کارروائی یا کسی اور منظم جرائم میں استعمال نہ ہوں پائیں۔

شام، ایران اور شمالی کوریا نے اس مجوزہ عالمی ٹریٹی کو نامنظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ایسے نقائص پائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے اسلحہ باغیوں کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک کا مطالبہ ہے کہ اس ٹریٹی کو مؤثر بنایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اسلحہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے استعمال ہو سکنےکا اندیشہ ہو تو ہتھیار سرحدوں کے پار منتقل نہیں ہونے چاہییں۔ ان تینوں ممالک نے اس ٹریٹی کو اس کی موجودہ شکل میں منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

USA Tauschaktion Waffen gegen Lebensmittelgutschein
’یہی اسلحہ جنگوں، ظلم و جبر ڈھانے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے‘تصویر: Reuters

امید کی جا رہی تھی کہ 193 رکن ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ کے نمائندے اس ڈیل کو حتمی شکل دے دیں گے لیکن یہ نہ ہو سکا۔ اس پیشرفت کے بعد اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے اس مجوزہ ٹریٹی کا مسودہ میکسیکو، آسٹریلیا اور دیگر متعدد ریاستوں کی ایما پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ارسال کر دیا ہے تاکہ اب اس عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی میں اسے منظور کرنے کے لیے پیش کر دیا جائے۔

’کنٹرول ضروری ہے‘

ناقدین کے بقول جنرل اسمبلی میں اس مسودے کو ایک بڑی اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا جائے گا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے سفارتکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس مسودے کو ووٹنگ کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منگل تک پیش کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی خاتون سفارتکار یوآنا ایڈمسن نے روئٹرز کو بتایا ہے، ’’یہ ایک اچھی اور مضبوط ٹریٹی ہے، جسے منظور ہونے سے روک دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے ممالک اس حوالے سے ایک ریگولیٹری نظام وضع کرنا چاہتے ہیں اور ان کی آواز سنی جانا چاہیے۔

امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ٹامس کنٹریمن نے بھی کہا ہے کہ یہ نیا معاہدہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جلد ہی منظور کر لیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا کہ اسے کتنے ووٹوں سے منظور کیا جائے گا۔ انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ اس ٹریٹی کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی۔

اسلحے پر کنٹرول قائم کرنے اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کا کہنا ہے کہ اسلحے کی بے قابو ترسیل کو روکنے کے لیے ایک مؤثر معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی اسلحہ جنگوں، ظلم و جبر ڈھانے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ab/ia(AFP,Reuters)