1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رمادی کی بازیابی کا آپریشن، ٹینک اور آرٹلری تعینات

عاطف بلوچ19 مئی 2015

عراقی سیکورٹی فورسز نے رمادی کے ارد گرد آرٹلری اور ٹینک تعینات کر دیے ہیں جبکہ اس شہر پر قابض اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے شہر میں بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FSpX
تصویر: picture alliance/AP Photo

خبر رساں روئٹرز نے بغداد سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو رمادی میں پسپا کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بروز منگل ملکی فوج نے اس شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے ارد گرد ٹینک اور آرٹلری تعینات کر دی ہے۔ اسی اثناء ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران نواز شیعہ ملیشیا کے جنگجوؤں نے رمادی کے جنوبی علاقوں میں جمع ہونا شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ اتوار کے دن رمادی پر قبضہ کرنے والے شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے جبکہ ساتھ ہی وہ اہم علاقوں اور سڑکوں پر بارودی سرنگیں بھی بچھا رہے ہیں۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق جنگجوگھروں میں جا کر ایسے افراد کو تلاش کر رہے ہیں، جو سیکورٹی فورسز کے لیے کام کرتے ہیں یا حکومت کے حامی ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ شدت پسند متعدد افراد کو ہلاک کر کے دریائے فرات میں بھی بھینک چکے ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے جہادیوں نے کہا ہے کہ وہ اسلامی عدالتیں قائم کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف مہیا کریں گے۔ انہوں نے رمادی کی جیل میں مقید سو ایسے قیدیوں کو بھی رہا کر دیا ہے، جنہیں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ کچھ مبصرین کے مطابق ان قیدیوں کو آزاد کرنے کے باعث یہ جہادی مقامی آبادی میں ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔

صوبہ انبار کے دارالحکومت رمادی پر جہادیوں کے قبضے کو ملکی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں اس شہر سے چالیس ہزار افراد فرار ہو چکے ہیں جبکہ حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ان جہادیوں کو شہر سے نکالنے کے لیے فوری کارروائی کی جائے۔ ادھر شیعہ ملیشیا نے سنی جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کو ’انبار کی جنگ‘ قرار دے دیا ہے۔

عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کی طرف سے رمادی کی آزادی کی مہم میں ’الحشد الوطنی‘ نامی شیعہ ملیشیا کے فائٹرز کو بھی شامل کرنے سے ایسے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ سنی اکثریتی اس علاقے میں فرقہ واریت کی آگ پھیل سکتی ہے۔ شیعہ وزیر اعظم العبادی نے یہ عہد بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ حکومت نواز مقامی سنی قبائل کو بھی تربیت فراہم کریں گے تاکہ وہ بھی خطرات سے نمٹ سکیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ عراق میں قیام امن کے لیے متحد ہو جائیں۔

ادھر عراقی فوج کے ترجمان سعد مان نے کہا کہ سکیورٹی فورسز رمادی اور الحابانیہ ملٹری بیس کے درمیانی علاقے میں تعینات ہیں اور وہاں سے تیس کلو میٹر دور ہی شیعہ فائٹرز ان کے منتظر ہیں، ’’سکیورٹی فورسز اپنی پوزیشنوں کو مزید بہتر بنا رہی ہیں۔ انہوں نے دفاعی محاذ تیار کر لیے ہیں تاکہ دہشت گردوں (جہادیوں) کی طرف سے ممکنہ حملے کا جواب دیا جا سکے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جب رمادی کی بازیابی کے لیے آپریشن شروع کیا جائے گا تو سکیورٹی فورسز کی دفاعی حکمت عملی حملے میں تبدیل کر دی جائے گی۔

Irak Al Kaeda Kämpfer in Fallujah
تصویر: picture-alliance/AP Photo