1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'راکٹ خواتین': بھارت کے چاند مشن کا لازمی جز

29 اگست 2023

بھارتی سائنسدانوں کو امید ہے کہ چندریان تین کی کامیابی سے نوجوان خواتین کو بھی سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں آنے کی ترغیب ملے گی۔

https://p.dw.com/p/4VgyE
چندریان 3 میں خواتین کا کردار
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسرو کے سربراہ ایس سومناتھ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ چندریان تین مشن کا تصور کرنے، ڈیزائن کرنے اور اس پر عمل کرنے میں خواتین کس طرح شامل تھیںتصویر: Amit Dave/REUTERS

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے قمری مشن چندریان تین میں خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی خواتین سائنسدانوں سے گزشتہ دنوں ملاقات کی۔

چاند کو 'ہندو راشٹر' قرار دیا جائے، بھارتی ہندو مہا سبھا

 مودی نے اس موقع پرکہا، ''اس مشن میں شامل خواتین سائنسدانوں نے اس کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے تعاون کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہیں تھی۔ وہ آنے والی نسلوں کو متاثر کریں گی۔''

'چاند پر اترنا تو درکنار ہم تو یہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے‘

مودی نے چاند پر چندریان تین کے لینڈنگ اسپاٹ کا نام ''شیو شکتی'' رکھنے کا فیصلہ بھی کیا، یہ نام ہندو اساطیروں میں نسائی قوت کے تصور سے ماخوذ ہے، اور اس مشن پر کام کرنے والی خواتین سائنسدانوں کے لیے یہ ایک خراج تحسین بھی ہے۔

چندریان کے روور نے چاند کی سطح پر کام شروع کر دیا

بھارتی خلائی ایجنسی(اسرو) کے 16,000 سے زیادہ ملازمین میں سے 20 سے 25 فیصد کے درمیان خواتین ہیں۔

اس مشن میں 100 سے زیادہ خواتین سائنسدانوں اور انجینیئروں کے شامل ہونے کی اطلاع ہے، جس کا اختتام 23 اگست کو قمری روور کی کامیاب لینڈنگ سے ہوا اور اس طرح بھارت چاند کے قطب جنوبی پر اپنی خلائی گاڑی اتارنے والا پہلا ملک بن گیا۔

بھارتی کی خلائی گاڑی چاند پر کامیابی سے لینڈ کر گئی

اس کے لانچنگ اور گزشتہ ہفتے لینڈنگ کے وقت کنٹرول روم میں بہت سی خواتین بھی موجود تھیں۔

چندریان 3 میں شامل خواتین سے مودی کی ملاقات
مودی نے چاند پر چندریان تین کے لینڈنگ اسپاٹ کا نام ''شیو شکتی'' رکھنے کا فیصلہ بھی کیا، یہ نام ہندو اساطیروں میں نسائی قوت کے تصور سے ماخوذ ہے، اور اس مشن پر کام کرنے والی خواتین سائنسدانوں کے لیے یہ ایک خراج تحسین بھی ہےتصویر: ISRO

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسرو کے سربراہ ایس سومناتھ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ چندریان تین مشن کا تصور کرنے، ڈیزائن کرنے اور اس پر عمل کرنے میں خواتین کس طرح شامل تھیں۔ 

بھارت چندریان۔3 کی کامیابی کا بے صبری سے منتظر

انہوں نے کہا، ''ان میں سے بعض خواتین نے لینڈر کے نازک مرحلے کے دوران نیویگیشن میں اہم کردار ادا کیا۔''

اسرو کی خواتین سائنسدان کون ہیں؟

چندریان تین مشن کے قائدین میں سے ایک ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر کلپنا کلاہستی ہیں۔ انہوں نے بھارت کے دوسرے قمری مشن اور مریخ کے مدارمیں پہنچنے کے مشن میں بھی کردار ادا کیا تھا۔

کلاہستی سیٹلائٹ میں مہارت رکھتی ہیں اور انہوں نے تصویر لینے والے ان جدید ترین آلات کی نگرانی کی، جس کی وجہ سے اسرو زمین کی سطح کی اعلی ریزولوشن والی تصاویر لینے کے قابل بنا۔

ایک دوسری خاتون ریما گھوش روبوٹکس کی ماہر ہیں، جنہوں نے ''پراگیان'' روور کو تیار کرنے میں اہم کام کیا، جو اس وقت چاند کی سطح پر دریافت کا کام کر رہا ہے۔

گھوش نے مودی کے دورے کے بعد میڈیا کو بتایا، ''میرے لیے، پرگیان ایک بچے کی طرح ہے اور وہ چاند پر چہل قدمی کر رہا ہے۔ پہلی بار روور کو چاند پر اترتے دیکھنا ایک شاندار تجربہ تھا۔''

انہوں نے مزید کہا: ''بشمول مریخ مشن کے اس منصوبے کے تحت بہت سے دیگر مشن بھی ہیں جنہیں جلد ہی شروع کیا جائے گا۔''

شمسی ماحول کا مطالعہ کرنے کے لیے اسرو نے 'آدتیہ ایل یکم' نامی ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے ستمبر کے پہلے ہفتے میں لانچ کیے جانے کی توقع ہے۔

ریتو کری دھل ایک اور سینیئر خاتون سائنسدان اور ایرو اسپیس انجینئر ہیں، جنہوں نے سن 1997 میں اسرو میں شمولیت اختیار کی تھی اور کئی اہم خلائی مشنوں کا حصہ رہی ہیں۔ وہ چندریان دو میں پروجیکٹ ڈائریکٹر تھیں، اور مریخ کے مدار میں مشن ''منگلیان'' بھی شامل تھیں۔

بھارت کی ''راکٹ وومن'' کے نام سے مشہور کری دھل کو ''اسرو ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ'' بھی مل چکا ہے۔

کری دھل نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''چندریان نے چاند پر بھارت کا نام ہمیشہ کے لیے لکھ دیا ہے۔ بھارت چاند کے قطب جنوبی تک پہنچنے والا پہلا ملک بن گیا ہے، میں نے اور دوسروں نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔''

اسرو کی ایک اور سینیئر سائنسدان ندھی پوروال ہیں، جنہوں نے چندریان تین کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے چار سال تک تندہی سے کام کیا۔ انہوں نے چاند کی سطح تک پہنچنے والے لینڈر کو ''جادو'' قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسرو میں خواتین کی شراکت دیگر شعبوں کے لیے ایک مضبوط مثال قائم کرتی ہے۔

سائنس کے شعبوں میں مزید خواتین کی ضرورت

بھارتی خلائی ادارے اسرو میں خواتین کی خاطر خواہ شمولیت کے باوجود ماہرین کا ماننا ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی جیسے شعبوں میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ماہر حیاتیات وینیتا بال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر قطرہ شمار ہوتا ہے کیونکہ اس کی ایک قدر ہوتی ہے، اس کا کچھ اضافی اثر ہوتا ہے۔ تاہم یقینی طور پر ملک میں ہر سائنسی اور تکنیکی کوشش کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ خواتین کی شرکت میں کمی نہ ہونے پائے بلکہ اس میں تیزی سے اضافہ ہو۔ لیکن ہم اس مقصد سے بہت پیچھے ہیں۔''

ایک حالیہ ملک گیر سروے سے پتا چلا ہے کہ بھارتی اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی سائنسدانوں اور سائنس فیکلٹی میں صرف 13 فیصد ہی خواتین ہیں۔ اس سے ان خدشات میں اضافہ ہوتا ہے کہ صنفی تناسب کو بہتر بنانے کے لیے برسوں پہلے کی گئی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی جیسے شعبوں میں خواتین گریجویٹ کا تناسب

43 فیصد ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم، تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں میں سائنس دانوں، انجینیئروں اور تکنیکی ماہرین میں ان کا تناسب  صرف 14 فیصد ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی سابق چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''ہم سائنسی اداروں میں زیادہ خواتین دیکھ رہے ہیں جو کہ حوصلہ افزا بات ہے۔ لیکن جب ادارہ جاتی قیادت کی بات آتی ہے تو وہاں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے اور اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ پینل کمیٹیوں میں خواتین کی تعداد کم ہے اور ایک عدم توازن ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔''

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

بھارت بین الاقوامی خلائی دوڑ میں آگے کیوں بڑھ رہا ہے؟