1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

راجستھان میں لیتھیم کے ذخائر کی موجودگی کا دعویٰ 'بے بنیاد‘

جاوید اختر، نئی دہلی
10 مئی 2023

جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے راجستھان میں لیتھیم کی موجودگی کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔ چند روز قبل دعویٰ کیا گیا تھا کہ ناگور میں لیتھیم کے اتنے بڑے ذخائر ملے ہیں کہ اب بھارت کو چین پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/4R8Fw
Symbolbild Lithium
تصویر: Robert Michael/dpa/picture alliance

سرکاری ادارے جیولوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی) نے میڈیا کی ان خبروں کو 'بے بنیاد‘ قرار دے دیا ہے کہ پاکستان سے متصل بھارتی صوبے راجستھان کے ناگور میں لیتھیم کے بہت بڑے ذخائر ملے ہیں۔

حالانکہ میڈیا نے یہ خبر جی ایس آئی کے ذرائع کے حوالے سے ہی دی تھی تاہم منگل نو مئی کے روز اس ریاستی ادارے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ''ناگور ضلع کے ڈیگانا علاقے میں لیتھیم کے بہت بڑے ذخائر ملنے سے متعلق جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے حوالے سے متعدد اخبارات میں شائع شدہ خبریں پوری طر ح بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جی ایس آئی کی طرف سے اس طرح کی کوئی اطلاعات کسی کو فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ گوکہ جی ایس آئی ڈیگانا علاقے میں ٹنگسٹن، لیتھیم اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تلاش سن 2019 اور 2020 سے جاری رکھے ہوئے ہے تاہم اس حوالے سے کوئی بھی حتمی بات یہ کام مکمل ہو جانے کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے۔

لیتھیم کا استعمال آئن بیٹریاں تیار کرنے میں کیا جاتا ہے جو موبائل فونز، لیپ ٹاپس، دیگر الیکٹرانک آلات اور الیکٹرک کاروں تک میں استعمال ہوتی ہیں
لیتھیم کا استعمال آئن بیٹریاں تیار کرنے میں کیا جاتا ہے جو موبائل فونز، لیپ ٹاپس، دیگر الیکٹرانک آلات اور الیکٹرک کاروں تک میں استعمال ہوتی ہیںتصویر: DW

لیتھیم ایک قیمتی دھات

لیتھیم ایک ایسی قیمتی لیکن ہلکی دھات ہے، جس کا استعمال آئن بیٹریاں تیار کرنے میں کیا جاتا ہے۔ یہ بیٹریاں موبائل فونز، لیپ ٹاپس، دیگر الیکٹرانک آلات اور الیکٹرک کاروں تک میں استعمال ہوتی ہیں۔

’سفید سونا‘ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کتنا ضروری؟

تیل کا متبادل سمجھی جانے والے اس قیمتی دھات کو 'سفید سونا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی لیتھیم کی 60 فیصد ضروریات بولیویا، ارجنٹائن اور چلی پورا کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کا ایک بڑا ذخیرہ افغانستان میں بھی موجود ہے۔ اس سال کے اوائل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی تقریباﹰ 5.9 ٹن لیتھیم کی موجودگی کا پتہ چلا تھا۔

افغانستان میں بیش قیمت معدنیات، مختلف ممالک کی امیدیں

جس رفتار سے لیتھیم کے استعمال میں تیزی آ رہی ہے، اس کے مدنظر اس کے مقابلتاﹰ جلد ختم ہو جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بھارت لیتھیم کی اپنی مجموعی ضروریات کا تقریباً 54 فیصد چین سے درآمد کرتا ہے۔ سال 2020-21میں بھارت نے چھ ہزار کروڑ روپے سے زائد کا لیتھیم درآمد کیا تھا، جس میں سے 3500 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی یہ ہلکی دھات چین سے منگوائی گئی تھی۔

لیتھیم کی قلت، لیکن اس سے ہمارا کیا لینا دینا؟

لیتھیم ملنے کا دعویٰ جو غلط ثابت ہوا

پچھلے ہفتے جی ایس آئی کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ناگور میں لیتھیم کے کافی بڑے ذخائر کا پتہ چلا ہے اور یہ مبینہ طور پر کشمیر میں ملنے والے لیتھیم کے ذخائر سے بھی کہیں زیادہ ہے اور ان کے ذریعے بھارت میں اس دھات کی مجموعی مانگ کا 80 فیصد تک پورا کیا جا سکے گا۔

مختلف حلقوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا تھا کہ لیتھیم کی اتنی بڑی مقدارکا پتہ چلنے کے بعد اب بھارت کا چین پر انحصار کم ہو جائے گا  اور چین کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ راجستھان کی بھی قسمت اسی طرح چمک جائے گی جیسا کہ خلیجی عرب ملکوں میں تیل ملنے کے بعد ہوا تھا۔

’افغانستان لیتھیئم کا سعودی عرب بن سکتا ہے‘

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2050 تک لیتھیم کی مانگ میں 500 فیصد تک کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے کسی بھی ملک میں لیتھیم کے قدرتی ذخائر کی موجودگی اس کی اقتصادی ترقی کے لیے بڑی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

لیتھیئم کے بڑھتے استعمال کے ماحولیاتی نقصانات