1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

راجا پاکسے خاندان، عروج اور زوال کی کہانی

14 جولائی 2022

سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے ملک میں شدید ترین سیاسی اور اقتصادی بحران کے تناظر میں کئی ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد مستعفی ہونے سے چند گھنٹے قبل ملک سے فرار ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/4E6yb
Sri Lanka Colombo | Proteste am Büro des Premierministers Ranil Wickremesinghe
تصویر: Eranga Jayawardena/AP/picture alliance

سری لنکا حالیہ چند ماہ سے شدید ترین سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ صدر گوٹابایاراجا پاکسے نے ویک اینڈ پر صدارتی دفتر پر ہزاروں مظاہرین کے حملے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ بدھ کے روز وہ اسی تناظر میں ملک سے فرار ہو کر مالدیپ پہنچ گئے جب کہ اس کے بعد صدارتی ذمہ داریاں عبوری طور پر وزیراعظم رانیل وکرماسنگھے نے سنبھال لیں۔ تاہم گوٹابایا راجا پاکسے کا ملک سے فرار راجا پاکسے خاندان کی سری لنکا کی سیاست میں گزشتہ تیس برس سے جاری برتری کا خاتمہ بھی ہے۔ گوٹابایا کو ان کے بڑے بھائی مہِندا راجا پاکسے نے سن 2004 میں انہیں وزیر مقرر کیا تھا۔

سری لنکا: معاشی اور سیاسی بحران کے دوران صدر راجا پکسے ملک سے فرار ہو گئے

راجا پکسے فرار، لاکھوں روپے سرکاری رہائش گاہ میں پیچھے چھوڑ گئے

سری لنکا کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے تھنک ٹینک LIRNEasia کے بانی چیئر روہان سماراجیووا کے مطابق، ''مہِندا عوامیت پسند رنگ کے ساتھ چلتے تھے اور وسیع سیاسی مسائل پر نگاہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو 'عوامی آدمی‘ کے بہ طور پیش کیا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے نظریے کے حامی افراد رکھا کرتے تھے۔‘‘

خانہ جنگی کے خاتمے کی وجہ سے مقبولیت

مہِندا راجا پاکسے سن 2005 میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی قیادت میں فوج نے تین دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کیں اور یوں بلآخر سن 2009 میں تامل باغیوں کے خلاف جاری یہ جنگ ختم ہو گئی۔

یہ مسلح تنازعہ سنہالی نسل افراد کی اکثریت کی حامل کولمبو حکومت اور عسکریت پسند گروپ لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلام کے درمیان تھا۔ تمل برادری سری لنکا کی بائیس ملین کی آبادی کا پندرہ فیصد بنتی ہے۔

اس جنگ میں تامل باغیوں کو شکست دینے پر سری لنکا میں بدوھ مت کو ماننے والی سنہالی برادری میں مہِندا پاکسے کی مقبولیت بڑھی اور ساتھ ہی اقتدار پر ان کی گرفت بھی۔گوٹابایا مہندا راجا پاکسے کی حکومت کے طاقت ور عہدے دار اور وزارت دفاع میں عسکری منصوبہ ساز تھے۔

کولمبو سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی امرتانایاگم کے مطابق، ''یہی وہ وقت تھا جب راجا پاکسے برادرز جنگی ہیرو سمجھے جاتے تھے۔‘‘

مہندا راجا پاکسے سن 2015 تک صدر رہے تاہم انہیں صدارتی انتخابات میں ان کے سابقہ ساتھی اور وزیرصحت متھری پالا سری سینا کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

خاندان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی

اپریل 2019 میں ایسٹر کے موقع پر کولمبو میں ہونے والے مسلم دہشت گردانہ حملے میں 250 افراد مارے گئے۔ گوٹابایا نے اسی وقت صدارتی دوڑ میں اترنے اور ملک میں سکیورٹی کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھرپور اور مضبوط قوم پرستانہ مہم نے انہیں سنہالی بودھ اکثریت میں مقبول بنایا اور یوں وہ ساتھ ہی ملک کو اقتصادی زوال سے نکالنے کے لیے نکلے۔ انہیں انتخابات میں کامیابی ملی اور یوں راجا پاکسے خاندان پھر سے اقتدار میں آ گیا۔ گوٹابایا صدر بنے تو انہوں نے وزیراعظم مہندا راجا پاکسے کو مقرر کر دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت میں کئی اہم عہدے دیگر فیملی ممبرز کو دے دیے۔ اپنے بھائی بازل کو وزیرخزانہ اور ایک اور بھائی کو وزیرزراعت بنا دیا۔ اپنے بیٹے نامل کو انہوں نے کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کی وزارت سونپ دی۔ ان تقرریوں کا مقصد اقتدار پر راجا پاکسے خاندان کی ریاستی امور پر گرفت کو یقینی بنانا تھا۔

سری لنکا میں مظاہرین کا صدارتی محل پر قبضہ، اب کیا ہو گا؟

غلط اور عوامیت پسند فیصلے

اقتدار پر ایک خاندان کے بے انتہا تسلط اور سیاسی افق پر اجارہ داری کی وجہ سے کئی ناعاقبت اندیش اور غلط فیصلے کیے گئے۔ 2019 میں راجا پاکسے نے ٹیکسوں میں بڑی کمی کا اعلان  کیا جس سے حکومتی مالیات کو بڑا نقصان ہوا۔

گزشتہ برس حکومت نے تمام کیمیائی کھادوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی، جس سے خوراک کی مقامی صنعت کو شدید دھچکا پہنچا۔ چھ ماہ بعد گو کہ حکام نے یہ پابندی ہٹا دی، لیکن اس کا نقصان ہو چکا تھا۔ نتیجہ ملک میں زرعی اجناس کی قلت کی صورت میں نکلا۔

ع ت/ ک م) اپارنا رامامورتھی (